Inquilab Logo

عورتوں کو در پیش مسائل کس حد تک حل ہوئے، اس پر غور کرنا ضروری ہے

Updated: March 13, 2024, 11:24 AM IST | Khaleda Fodkar | Mumbai

برسوں سے ۸؍ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد اور منشا دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق کے تعلق سے بیداری پیدا کرنا اور عورتوں پر ہو رہے ظلم و نا انصافی کو روکنا ہے۔

It is not enough to just give a slogan for the welfare of women, but their real development should be guaranteed! Photo: INN
خواتین کی فلاح و بہبودی کا صرف نعرہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ ان کی حقیقی ترقی کی ضمانت دی جانی چاہئے!۔ تصویر : آئی این این

برسوں سے ۸؍ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد اور منشا دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق کے تعلق سے بیداری پیدا کرنا اور عورتوں پر ہو رہے ظلم و نا انصافی کو روکنا ہے۔ یوں تو وقتاً فوقتاً عورتوں کے حقوق و مطالبات کی خاطر آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، اس سماجی کاز اور ان متفرق آوازوں کو ایک تحریک کے طور پر منضبط و مربوط کرنے کی خاطر ایک دن مخصوص کرکے اُسے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیا گیا جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ پیغام پوری دنیا میں ایک ہی وقت اور پوری توانائی سے پہنچے اور عالمی اثر و رسوخ و تعاون کے ساتھ یہ کوشش کی جاسکے کہ ہمارے معاشروں میں مرد و عورت کے حقوق میں جو تفریق اور امتیازات ہیں اُن کو کم کیا جاسکے اور اس پیغام کو عام کیا جاسکے کہ بطور انسان عورت بھی اُن تمام مراعات اور آسانیوں کی حقدار ہے جو مردوں کو بن مانگے میسر ہیں، عورتوں کے لئے بھی معاشرے میں وہ عزت اور توقیر قائم ہوسکے وہ جو مردوں کو حاصل ہے۔ معاشرے کی ابتری سے پریشان عورتیں بھی اپنے لئے باعزت اور پرسکون مقام کی متلاشی ہیں جہاں اُن کی ذات کی نفی نہ ہو بلکہ اس کی مستحکم حیثیت کو مردوں کی بالا دستی والا سماج تسلیم بھی کرے اور عزت بھی کرے۔
 اس مخصوص دن ساری دنیا میں عورتوں کے حقوق اور مطالبات کے تحفظ کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کی خاطر مختلف پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں، معاشرہ سے مرد و عورت کے درمیان عدم مساوات اور امتیازات کو کم کرنے اور عورتوں کے جائز حقوق ادا کرنے کے بارے میں تجاویز اور شفارشات طے کی جاتی ہیں، عملی اقدامات کے بارے میں غور و خوص کیا جاتا ہے۔ غرض اس دن کا منانادرحقیقت نا انصافی اور جنسی تفریق کے خلاف ایک طرح کی یاد دہانی، مثبت ذہن سازی اور عوامی بیداری کی کوشش ہے۔
 نیک نیتی اور ذہنی و قلبی کشادگی کے ساتھ اس دن کو منانا گرچہ اپنے آپ میں اہم بات ہے مگر زیادہ اہم یہ دیکھنا اور طے کرنا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں عورتوں کو در پیش مسائل کس حد تک حل ہوسکے ہیں اور بنیادی و سماجی حقوق کی ادائیگی کس قدر ممکن ہوئی ہے؟ کیونکہ ہر سطح پر حقوقِ نسواں کے تحفظ کی یقین دہانی کے باوجود انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو پاتے، آج بھی عورتیں اپنےہی معاشرے میں خود کو محفوظ نہیں محسوس کرتی ہیں۔ تمام تر بیداری اور آگاہی کے باوجود ہمارے ملک جیسے ترقی پذیر یا دیگر پسماندہ ممالک میں عورتوں پر گھریلو تشدد، کام کی جگہوں پر ہراسانی، کم اُجرتیں، تعلیم حاصل کرنے کے محدود مواقع، شادی بیاہ اور جہیز کے نام پر ایذا رسانی، وراثت سے بے دخلی جیسے لا تعداد مسائل موجود ہیں۔ عورتوں کے لئے مشکل حالات صرف ہمارے ملک تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کی خواتین چاہے وہ ترقی یافتہ ملک و معاشرے میں رہتی ہوں یا کسی پسماندہ ملک کی شہری ہوں، اپنے اپنے خطوں میں کم و بیش ان ہی جیسے سیکڑوں مسائل کا شکار ہیں، تعلیم اور سماجی بیداری عام ہونے کے باعث دنیا ان مسائل سے آگاہ ہوسکی ہے اور اُن کے حل ڈھونڈنے کی طرف پیش قدمی بھی ممکن ہو رہی ہے۔ اس پیش قدمی اور طے شدہ اصلاحات کے یقینی نفاذ کے لئے ضروری ہے کہ یہ دن صرف تقریری تحریری مباحثے، بیان بازی اور جلسوں ریلیوں کے نمائشی انعقاد تک محدود نہ رہ جائے بلکہ چھوٹے بڑے تمام مسائل کے پائیدار حل کے لئے ہر سطح پر عملی اقدام کئے جائیں۔ اس عالمی دن کے منانے کی اصل غرض و غایت بھی یہی ہے کہ فرد معاشرہ اور حکومت سب مل کر مسلسل اور خلوص کے ساتھ عورتوں کی فلاح و بہبود کی تجاویز اور سفارشات پر عمل درآمد کریں تاکہ خواتین پر مشتمل دنیا کی تقریباً نصف آبادی سماج کے لئے کار آمد بن سکے اور معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی آسکے۔
 اقوام متحدہ اور آج کی دنیا کا پیش کردہ یہ جدید تصور ساڑھے چودہ سو سال قبل سب سے پہلے اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے، تعصب کی عینک اُتار کر دیکھا جائے تو حقوق نسواں اور عورتوں کے لئے انصاف، عزت و احترام کا یہ منشور صرف اور صرف اسلام کی دین ہے۔ ہم سب اس تلخ حقیقت سے واقف ہیں کہ کس طرح عرب و عجم کے جہالت سے پر معاشرے میں بیٹیاں پیدا ہوتے ہی زندہ دفنائی جاتی تھیں، کہیں انہیں مختلف جاہلانہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ اُس جاہلانہ دور کی ظلمتوں سے اسلام کی صورت میں انصاف و ہدایت کا وہ سورج طلوع ہوا جس نے تمام بندوں کے لئے باوقار زندگی گزارنے کے پیمانے مقرر کئے، جس کی آفاقی تعلیمات نے جہالت کے گھور اندھیرے مٹا دیئے اور سب سے بڑا احسان صنف نازک پر یہ کیا کہ اُسے زندہ رہنے کے بنیادی حق سے سرفراز کیا، عورتوں پر صدیوں سے روا رکھے جانے والے ظلموں پر روک لگائی اور تحفظ نسواں اور حقوق انسانی کا وہ آسمانی بل پیش کیا جس کی برابری آج کی نام نہاد ترقی یافتہ قومیں اور حقوق نسواں کی حفاظت کی علمبردار تنظیمیں قیامت تک نہیں کرسکتیں۔ اسلام نے عورتوں کو جو آزادی اور حقوق دیئے اس کی مظہر قرآن کریم کی وہ آیتیں اور احادیث ہیں جن کی معنویت اور کمال کا اعتراف کرنے پر غیر اقوام بھی مجبور ہیں اور یہی وہ نور ہے جس کی ضیا سے بعد کے آنے والے ہر دور نے روشنی پائی ہے۔
 بحیثیت مسلمان ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس دن کی مناسبت سے اسلام کی تعلیمات کو اپنے ہم وطنوں اور غیر اقوام میں متعارف کروائیں، ہم عورتیں بھی اپنی قدر و قیمت پہچانیں، بنت حوا کے وہ چہرے جس کے نقوش وقتی تقاضوں، مفروضات، کم علمی، ناسمجھی اور غیر نافع جدت طرازیوں کی آندھی میں گرد آلود ہوگئے ہیں اس چہرے سے ساری گرد کو صاف کریں۔ مغربی معاشرے کی چکا چوند سے مرعوب نہ ہو کر اپنی اخلاقی و مذہبی روایات کے دائرے میں رہتے ہوئے ترقی اور دور جدید کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ رہیں کیونکہ اپنی اقدار سے بغاوت کرکے ترقی کی خواہش کرنا نقصان کا سودا ہے، اپنی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہم اپنے گھر خاندان یا اطراف میں عورتوں کی فلاح کے لئے ہرممکن کوشش اور تعاون پیش کریں، سماج میں حقوقِ نسواں کے تعلق سے پائی جانے والی ہر نا انصافی یا ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور مظلوم کی مدد کرنے کی ضرور کوشش کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK