Inquilab Logo

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

Updated: April 29, 2024, 11:31 AM IST | Ansari Ayesha Aabshar Ahmad | Mumbai

عورت مرد کی تفریق فطرت نے نہیں بلکہ سماج نے روا رکھی اور عورت کو مرد کے بنائے ہوئے چند مخصوص کرداروں تک جبراً محدود کر دیا گیا۔ اکیسویں صدی میں ملک کی آدھی آبادی کو اب اپنے حقوق حاصل کرنے سے روکنا قطعی دانشمندی نہیں کیونکہ عورت اب جبر کے ہتھیاروں کیخلاف تعلیم، شعور اور اعتماد سے لیس ہورہی ہے۔

Women play a major role in raising and training the new generation. Photo: INN.
نسل ِ نو کی پرورش اور تربیت میں عورت کا بڑا عمل دخل ہے۔ تصویر: آئی این این۔

جنت سے نکلوانے والی، ناقص العقل اور آدھی گواہی جیسے القابات سے نوازی گئی قدرت کی اس مخلوق کو عرف عام میں عورت کہا جاتا ہے۔ وہی عورت جو ہزاروں سال قبل تاریخ کے اوراق میں ایک تخلیق کار ہونے کی بنا پر ارفع اور اعلیٰ ٹھہرائی جاتی تھی لیکن اس کو کمتر سمجھنے اور پیچھے کرنے کی کوشش ہمیشہ کی گئی۔ الطاف حسین حالی فرماتے ہیں : جب تک جیو تم علم و دانش سے رہو محروم یاں / آئی ہو جیسی بے خبر ویسی ہی جاؤ بے خبر۔ 
اس طرح دنیاوی کرداروں میں عورت مرد کی تفریق فطرت نے نہیں بلکہ سماج نے روا رکھی اور عورت کو مرد کے بنائے ہوئے چند مخصوص کرداروں تک جبراً محدود کر دیا گیا۔ اکیسویں صدی میں ملک کی آدھی آبادی کو اب اپنے حقوق حاصل کرنے سے روکنا قطعی دانشمندی نہیں کیونکہ عورت اب جبر کے ہتھیاروں کے خلاف تعلیم، شعور اور اعتماد سے لیس ہورہی ہے۔ وہ بیدار ہو رہی ہے۔ اپنے حق کے لئے آواز بلند کر رہی ہے۔ 
خواتین کے مسائل کا حل ان کا بنیادی حق ہے۔ عورت کا بنیادی حق تعلیم اور صحت کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ عورت تعلیم حاصل کرکے اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ ہوسکتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی اسے صحت سے متعلق مسائل کے بارے میں معلوم ہوگا اور وہ اپنی صحت کے تئیں بیدار ہوگی۔ 
اسلام نے نہ صرف عورت کے حقوق ہی نہیں مقرر کئے بلکہ ان کو مردوں کے برابر درجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
الحمدللہ! مسلم خواتین وطن ِ عزیز میں اسلامی طرز حیات پر زندگی گزار سکتی ہیں۔ انہیں حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے، کام کرنے کی آزادی ہے وہ بااختیار بن رہی ہیں اور ہر شعبے میں اچھا کام کر رہی ہیں۔ ایسی خواتین کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ ان کے کام کو شہرت حاصل ہونی چاہئے تاکہ دیگر خواتین کو بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے۔ 
جیسا کہ مشہور شاعر اسرار الحق مجازؔ نے عورت کے ماتھے پر شرم و حیا کے آنچل کی تعریف کی ہے لیکن یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ اس آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا کے اپنے حقوق کے لئے بلند کرو۔ یہی آج کی عورت کا منصب و کردار ہونا چاہئے۔ دنیا کو خوشحال اور صحتمند بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہے کہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے۔ ان کا حوصلہ بڑھایا جائے انہیں نئے نئے کام کرنے پر مائل کیا جائے اور انہیں احساس دلایا جائے کہ وہ خود کو صرف گھر کے کاموں تک ہی محدود نہ رکھیں انہیں ہر شعبے میں برابری کے مواقع دیئے جائیں۔ اس کے لئے خواتین کے تحفظ کے مناسب قوانین اور ان کے نفاذ کے مکمل انتظامات ہونے چاہئیں۔ جب خواتین کام کرنے کی جگہ پر خود کو محفوظ سمجھیں گی تب وہ اپنی کارکردگی کو بہتر طور پر انجام دے سکیں گی۔ 
عورت معاشرے کی ایک بھرپور اکائی ہے اس کا زندگی کے ہر گوشے سیاسی، اقتصادی، عائلی اور تربیتی میں خاص کردار ہے۔ ملک کا مستقبل سنوارنے کے لئے نسل ِ نو کی پرورش اور تربیت میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔ آج دین کو بچانے کے لئے آپ کو گھروں سے نکلنا ہوگا۔ گھر گھر دعوتِ دین کا پیغام پہنچانا ہوگا۔ آج پھر سیدہ کائنات حضرت فاطمہؓ کی سیرت کے سانچے میں ڈھلنا ہوگا۔ اپنا کردار حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ کے رنگ میں رنگنا ہوگا۔ حضرت زینبؓ کے مجاہدانہ اور انقلابی کردار کو ازسر نو زندہ کرنا ہوگا۔ آج پھر حضرت سمیہؓ اور حضرت ام عمارہؓ جیسی عظیم مجاہداتِ اسلام کی ضرورت ہے جنہوں نے جام ِ شہادت نوش کر لیا مگر اسلام پر آنچ نہ آنے دی۔ آج کی خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اولین اسلامی عہد کی طرف واپس ہو جائیں، عہد نبویؐ، عہد صحابہ اور عہد تابعین کی طرف اور اس روشن عہد کی طرف جب عورتیں اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی تھیں اور اپنے حقوق سے واقف تھیں۔ 
یاد رہے کہ اسلام نے عورت کے کردار کو ایک انسان، ایک ماں، ایک بیوی، ایک بیٹی اور ایک عورت کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کی ایک فعال عضو کے طور پر بیان کیا ہے جسے عورت کبھی فراموش نہ کرے وہ حقیقی اسلامی انقلاب کی قیادت کرے۔ اسلام کی داعی، مبلغ بنے، مربی بنے، بہترین رہنما اور گائیڈ بنے۔ حقیقی انقلاب کی قائد بن کر ابھرے۔ عورت کا قائدانہ رول کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ قرآن مجید میں سورہ نمل میں ملکہ سبا بلقیس کا ذکر یونہی بلامقصد نہیں بیان ہوا ہے جس نے بہت ہی حکمت اور شجاعت کے ساتھ مردوں کی قیادت کی اور انہیں بہترین انجام تک پہنچایا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت اپنے منصب جلیلہ کو پہچانے، سمجھے اور عمل کرے تاکہ نیا سویرا ہو۔ 
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK