اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بااخلاق، بااعتماد اور باشعور شہری بنیں تو ہمیں انہیں ڈرانے کے بجائے سمجھانا، دبانے کے بجائے سنوارنا اور سزا دینے کے بجائے اُن کی رہنمائی کرنا ہوگا۔ یہی حقیقی معنوں میں کامیاب اور سمجھدار والدین ہونے کی علامت ہے۔ خیال رہے کہ نظم و ضبط سے بچے ذمہ دار بنتے ہیں۔
بچوں کو مارنے یا سزا دینے سے ان پر منفی اثر پڑتا ہے جبکہ نظم و ضبط کے ذریعہ مائیں بچوں کو بہت کچھ سکھا سکتی ہیں۔ تصویر: آئی این این
بچوں کی شخصیت سازی اور کردار کی تعمیر کا عمل عمر کے ابتدائی مرحلے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ نازک دور ہوتا ہے جس میں والدین کی توجہ، رہنمائی اور طرزِ تربیت بچے کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر اس مرحلے پر بچوں میں نظم و ضبط کی بنیاد مضبوطی سے رکھ دی جائے تو وہ مستقبل میں ایک متوازن، ذمہ دار اور باکردار فرد بن سکتے ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کم عمری میں بچوں پر حد سے زیادہ محبت، بے جا لاڈ پیار اور غیر ضروری رعایتیں دی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں نظم و ضبط پس منظر میں چلا جاتا ہے اور بچے ضد، خودسری اور نافرمانی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک طویل عرصے تک یہ مقولہ زبان زدِ عام رہا ہے کہ ’’چھڑی بجے چھم چھم، ودیا آئے گھم گھم!‘‘ یعنی سزا کے ذریعے ہی علم، ادب اور اطاعت سکھائی جاسکتی ہے۔ اس سوچ کے تحت جسمانی سزا کو تربیت کا لازمی جزو سمجھا جاتا رہا۔ مگر جدید نفسیاتی تحقیق اور تعلیمی نظریات اس خیال کی تردید کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ سزا وقتی اطاعت تو پیدا کرسکتی ہے، مگر مستقل اصلاح اور مثبت شخصیت کی تعمیر میں ناکام رہتی ہے۔
آج کے دور میں اکثر گھروں میں ایک یا دو ہی بچے ہوتے ہیں۔ وہ والدین کی آنکھوں کا تارا اور خواہشات کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ہر آسائش بغیر مانگے میسر آتی ہے، ہر خواہش فوراً پوری کی جاتی ہے اور ہر غلطی نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ لیکن جب کبھی بچے کی مرضی کے خلاف بات ہو، مثلاً اسکرین کے بجائے مطالعہ کرنے کہا جائے، نظم و ضبط اپنانے یا ذمہ داری نبھانے کی تلقین کی جائے، تو بچہ مزاحمت کرتا ہے۔ اس موقع پر والدین پہلے سمجھاتے ہیں، پھر جھنجھلاتے ہیں، اس کے بعد آواز بلند ہوتی ہے اور بالآخر سزا کا سہارا لیا جاتا ہے۔
یہاں دراصل سزا اور نظم و ضبط کے فرق کو نہ سمجھنے کا المیہ سامنے آتا ہے۔ سزا اکثر والدین کی انا، غصے اور بے بسی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی سزا اصلاح کے بجائے خوف پیدا کرتی ہے۔ بچہ اطاعت تو کرتا ہے، مگر دل سے نہیں، بلکہ محض ڈر کی وجہ سے۔ یہی وجہ ہے کہ سزا بچے کے باطن میں ضد، جھوٹ اور بغاوت پیدا کرتی ہے۔
سزا اور نظم و ضبط میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سزا کنٹرول کا ذریعہ ہے، جبکہ نظم و ضبط تربیت کا عمل۔ سزا بچے کو مجرم بنا کر اس پر حکم چلانے کی کوشش کرتی ہے، جبکہ نظم و ضبط بچے کو سیکھنے والا سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ سزا کا ہتھیار خوف، شرمندگی اور تکلیف ہوتا ہے، جبکہ نظم و ضبط اعتماد، فہم اور شعور پیدا کرتا ہے۔
نظم و ضبط کا مقصد بچے کو اچھے اور برے میں تمیز سکھانا، صحیح انتخاب کی صلاحیت پیدا کرنا اور اسے ذمہ داری کا احساس دلانا ہے۔ نظم و ضبط یہ سکھاتا ہے کہ غلطی ہونا انسانی فطرت ہے، مگر اس غلطی سے سیکھ کر آگے بڑھنا اصل کامیابی ہے۔
جہاں سزا بچے کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ ناکام اور قصوروار ہے، وہیں نظم و ضبط اسے حوصلہ دیتا ہے کہ وہ دوبارہ کوشش کرے، نئے طریقے آزمائے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارے۔ ’’حوصلہ نہ ہارو، دوبارہ کوشش کرو، تم کر سکتے ہو!‘‘ جیسے جملے بچے کے اندر خود اعتمادی، خود احتسابی اور نظم و ضبط کو فروغ دیتے ہیں۔
سزا کے نتیجے میں بچے خوف زدہ ہو جاتے ہیں، اپنی غلطیاں چھپانے لگتے ہیں اور سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے، کیونکہ ان کا ذہن صرف یہ سوچتا ہے کہ خود کو سزا سے کیسے بچایا جائے۔ اس کے برعکس نظم و ضبط بچوں کو مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے، انہیں اپنی غلطیوں کی ذمہ داری لینا سکھاتا ہے اور یہ شعور دیتا ہے کہ سماج میں رہنے کے لئے کچھ حدود اور اصول ضروری ہوتے ہیں۔
درحقیقت نظم و ضبط بچوں کو خود پر قابو پانا سکھاتا ہے، جبکہ سزا انہیں وقتی اطاعت پر مجبور کرتی ہے۔ نظم و ضبط مثبت عادات کو پروان چڑھاتا ہے اور طویل مدتی کردار سازی کا ذریعہ بنتا ہے، جبکہ سزا منفی رویوں کو وقتی طور پر دباتی ہے، ختم نہیں کرتی۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بچوں کی تربیت میں چھڑی کے بجائے شعور، خوف کے بجائے فہم، اور سزا کے بجائے نظم و ضبط کو ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بااخلاق، بااعتماد اور باشعور شہری بنیں تو ہمیں انہیں ڈرانے کے بجائے سمجھانا، دبانے کے بجائے سنوارنا اور سزا دینے کے بجائے اُن کی رہنمائی کرنا ہوگا۔ یہی حقیقی معنوں میں کامیاب اور سمجھدار والدین ہونے کی علامت ہے۔ خیال رہے کہ نظم و ضبط سے بچے ذمہ دار بنتے ہیں، وہ مسائل کو حل کرنے والے بنتے ہیں، دوسروں کا احترام کرتے ہیں، اپنے جذبات کو قابو پانا بخوبی جانتے ہیں، وہ زندگی میں مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا کہ انسان غلطیوں ہی سے سیکھتا ہے۔ نظم و ضبط ان کی ذاتی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشری ترقی میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔