• Fri, 17 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دوسروں کا تجسّس کیوں؟ پہلے اپنا ضمیر ٹٹولئے

Updated: October 06, 2025, 3:12 PM IST | Khaleda Fodkar | Mumbai

کسی کی عمر، تنخواہ، کاروبار، خانگی معاملات، جائیداد، آمد و رفت یہ سب ایسی نجی معلومات ہیں جن کے تعلق سے ہر انسان حفاظت کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ انسانی و شرعی آداب اس حق ِ تحفظ کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ مگر آج ہم اپنے معاشرہ کا جو حال دیکھتے ہیں اس میں اس عمل کو گناہ میں شمار نہیں کیا جاتا بلکہ وقت گزاری اور تفریح سمجھا جاتا ہے۔

Revealing other people`s secrets is a bad habit and should be avoided. Photo: INN
دوسروں کے راز افشا کرنا ایک بُری عادت ہے، اس سے بچنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

انسانی فطرت میں دوسروں کی زندگی اور حالات کے بارے میں دلچسپی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اپنے اطراف اور متعلقین کی ہر سرگرمی سے باخبر رہنے کی خواہش انسانی جبلّت میں شامل ہے اور سرسری تجسّس کی حد تک یہ خواہش قابلِ قبول بھی ہے مگر جب یہ خواہش اپنی حدوں سے بڑھ کر دوسروں کی پرائیویسی میں مداخلت کرنے لگے تو ایک ناپسندیدہ فعل کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور جانے انجانے میں ہم اس ناپسندہ عمل اور باطنی گناہ میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔
 ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے نجی معاملات اور راز کی باتیں محفوظ رہیں، سرِ عام اچھالی نہ جائیں، عیب جو و عیب گو افراد کی پہنچ سے دور رہیں، ہر کوئی اپنے اُن رازوں کے افشا ہونے اور غلط ہاتھوں میں پہنچنے سے ڈرتا ہے جن سے ذاتی، مالی اور سماجی طور پر اُسے کوئی نقصان اور خطرات لاحق ہوں یا اسکے کاموں میں بگاڑ پیدا ہو، انسانوں کے راز اُن کی امانت اور خالص ذاتی سرمایہ ہوتے ہیں، کسی دوسرے فرد کو یہ اختیار نہیں کہ اُن میں در اندازی کی کوشش کرے۔ کسی کی عمر، تنخواہ، کاروبار، خانگی معاملات، جائیداد، آمد و رفت یہ سب ایسی نجی معلومات ہیں جن کے تعلق سے ہر انسان حفاظت کا حق محفوظ رکھتا ہے اور ہر خاص و عام پر ان کے اظہار کو ضروری نہیں سمجھتا۔ انسانی و شرعی آداب اس حق ِ تحفظ کی مکمل تائید کرتے ہیں بلکہ شریعت میں تو اس حق کی پامالی پر سخت وعیدیں ہیں۔
 مگر آج ہم اپنے معاشرے کا جو حال دیکھتے ہیں اس میں اس عمل کو گناہ میں شمار نہیں کیا جاتا بلکہ وقت گزاری اور تفریح سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے گھروں اور خاندانوں میں ہی ایسے منظر دکھائی دیتے ہیں جب چھوٹے بچوں کو گھر کے بزرگوں یا کسی فرد کی جاسوسی پر مامور کر دیا جاتا ہے۔ بچوں کی معصومیت چھین کر اُن میں عیاری، مکاری اور غیبت جیسی خصلتوں کو پروان چڑھانے کا کام ہماری تربیت میں شامل ہو جاتا ہے اور پھر اس غلط تربیت کا نتیجہ بچوں کی ذہنی و اخلاقی خرابی کی صورت میں والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اپنی متجسس طبیعت کی آسودگی کیلئے گھروں میں کام کرنے والی ملازماؤں کے ذریعے آس پڑوس کے گھروں کی باتیں معلوم کرنا عام سی بات ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ہمارے راز بھی اُن کے ذریعے دوسروں تک پہنچ سکتے ہیں، ہم احتیاط نہیں کرتے۔ اب تو ایک آسان ذریعہ سوشل میڈیا کی صورت میں ہر کسی کو ہر دم میسر ہے جہاں وقت کی کوئی قید نہیں اور لوگوں کے اسٹیٹس اور پوسٹوں کا پوسٹ مارٹم کرنے میں ہمارے اپنے قیمتی وقت کی بربادی کا بھی کوئی حساب نہیں۔ گھر محلہ سماج ہر جانب اگر ایسی بے احتیاطی اور ایسا نامناسب ماحول ہو تو شائستگی اور تہذیب وہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
 ایک دوسرے کے راز افشا کرنا اور شخصیات کو مجروح کرنا، خامیاں تلاش کرنا، محض جھوٹے گمان اور وہم کی بنیاد پر جھوٹی ادھوری معلومات پھیلانا کچھ لوگوں کیلئے بس وقت گزاری اور سطحی فرحت حاصل کرنے کے اسباب ہیں۔ اس سے بےنیاز کہ اُن کا یہ عمل رشتوں میں شدید کڑواہٹ اور باہمی اختلاف کا باعث بن جاتا ہے۔ لوگوں کے بارے میں کم سے کم جاننا ہمارے ذہنی سکون کیلئے بہتر ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش بے چینی اور بے اطمینانی کو فروغ دیتی ہے۔ اگرکسی کی کامیابی یا نعمت و دولت ہم میں حسد جلن اور مایوسی پیدا کرے یا کسی کی ناکامی اور نقصان پر خوشی محسوس ہونے لگے تو یہ جان لینا چاہئے کہ ہم ایک منفی جذبے کے زیرِ اثر آچکے ہیں۔ بُرائی کی طرف مائل اس کیفیت پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو ایک وقت ایسا بھی آئیگا کہ ہم حاسد اور بد خواہ مشہور ہو کر معاشرہ میں اپنا ذاتی وقار اور اعتبار کھو دیں گے۔
 انسانی جبلت کے اس منفی رویے کو روکنےکی خاطر رب کریم نے ’’اور (کسی کے) بھید نہ ٹٹولا کرو۔‘‘ (سورۂ الحجرات )۔ جیسی یہ دو لفظی تاکید اپنی کتابِ فرقان میں کی ہے، ان کلمات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دوسروں کے عیب تلاش کرنے (سراغ) لگانے سے حکماً منع فرمایا ہے تاکہ اس اخلاقی برائی اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر خرابیوں کے ہر اُس راستے پر روک لگا دی جائے جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ تمام منفی رجحانات اور اخلاقی تنزل سے اہلِ ایمان کو بچانےکی خاطر کی گئی یہ تنبیہ اپنے آپ میں مکمل نصیحت ہے اور قابلِ عمل بھی ہے۔ اس لئے کسی کے عیب تلاش نہ کریں اور اگر معلوم ہو جائیں تو فاش نہ کریں۔ دوسروں کی لاحاصل جستجو کو چھوڑ کر اپنے آپ کی جستجو کریں، خود شناس بنیں، خود شناسی بڑی نعمت ہے کہ وہ ہمیں اپنی ذات میں موجود ہزاروں خامیوں سے آگاہی اور اصلاح کی فکر میں مصروف کردیتی ہے۔ رب کریم سے دعا ہے کہ مختصر سی اس زندگی میں مجھ سمیت ہر طالبِ خیر کو اپنی خطاؤں اور عیوب پر نظر ثانی و اصلاح کرنے کی مہلت اور توفیق مل جائے (آمین)۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK