Inquilab Logo

بچوں کے اندازِ گفتگو کو نکھارنے پر آپ کی توجہ ضروری

Updated: May 07, 2024, 2:49 PM IST | Khaleda Fodkar | Mumbai

عام مشاہدہ ہے کہ جن گھروں میں شائستہ زبان بولی جاتی ہے وہاں ہر معاملے میں تہذیب و شائستگی پائی جاتی ہے۔ اہل خانہ نہ صرف ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا بھی جانتے ہیں ۔ ایسے گھرانوں میں بچے بڑے تمیز سے پیش آتے ہیں۔

Children learn from the environment at home, so parents should try to improve their communication style. Photo: INN
بچے گھر کے ماحول سے سیکھتے ہیں ا س لئے گھر کے بڑوں کو چاہئے کہ ان کا اندازِ گفتگو بہتر بنانے کیلئے کوشاں رہیں۔ تصویر: آئی این این

ہماری گفتگو کا انداز، لہجے اور رویے ہماری شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ انسان شیریں گفتار، نرم مزاج اور خوش اخلاقی کا پیکر ہے یا تلخ کلام، بد زبان اور بد مزاج، یہ اس کی گفتگو کے ڈھنگ سے بخوبی ظاہر ہو جاتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔ چونکہ شخصیت سازی کا بہترین دور بچپن کا ہوتا ہے اس دور میں جس طرح کی تربیت اور ماحول میسر ہوتا ہے اس کے اثرات تاعمر قائم رہتے ہیں اس لئے بہت ضروری ہے کہ جس ذمہ داری اور فکر کے ساتھ بچوں کی دیگر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اسی ذمہ داری اور احساس کے ساتھ ان کی زبان کی اصلاح، بول چال، انداز گفتگو اور اظہار خیال کے طورطریقوں کی تربیت کی جائے۔

یہ بھی پڑھئے: تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

 عام مشاہدہ ہے کہ جن گھروں میں شائستہ زبان بولی جاتی ہے وہاں ہر معاملے میں تہذیب و شائستگی پائی جاتی ہے۔ اہل خانہ نہ صرف ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا بھی جانتے ہیں۔ ایسے گھرانوں میں بچے بڑے تمیز سے پیش آتے ہیں۔ اس کے برعکس جہاں عمومی گفتگو میں بدزبانی، گالی گلوچ، بدتمیزی اور دوسری لغویات شامل ہوں ان گھروں میں لڑائی جھگڑے اور بد تہذیبی عام ہوتی ہے۔ ان میں ادب تمیز اور اچھے اوصاف بھی بمشکل پائے جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے بھی بدزبان ہوتے ہیں۔
 بلاشبہ انسان کو عطا کی ہوئی فراست، خوش کلامی، معاملہ فہمی بڑی نعمتیں ہیں اگر انسان اپنا مدعا، اپنے خیالات و نظریات خوش بیانی، شائستگی اور متوازن انداز میں پیش کرسکے تو سننے والے پر خوشگوار تاثر قائم ہوتا ہے اور کہنے والے کی شخصیت بھی معتبر ہوجاتی ہے۔ انسانی معاشرے میں وہی لوگ پسند کئے جاتے ہیں جن کی گفتگو میں نرمی، رواداری اور خوش خلقی کا واضح تاثر ہو، حتیٰ کہ نرمی اور شائستگی سے کی گئی تلخ نصیحت بھی کڑوی نہیں لگتی۔ لہجے میں اگر رس ہو تو دو بول بہت ہیں۔
اکثر اوقات ہماری زبان کی تلخی اور بے ادبی والدین اور بزرگوں کے قابل احترام رشتوں کا لحاظ بھی بھول جاتی ہے۔ لوگوں سے بدخلقی سے پیش آتے ہوئے ہمیں اپنے پیارے نبیؐ کا قول بھی یاد نہیں رہتا کہ مسلمان نہ طعنہ دیتا ہے اور نہ لعنت ملامت کرتا ہے اور نہ ہی فحش کلام ہوتا ہے۔ حقیقی مومن وہی ہے جس کی زبان کے شر سے بھی خلقت محفوظ ہو۔ بد زبانی، بدگوئی بداخلاقی ہمارا شعار نہیں ہونا چاہئے کہ زبان و کلام کی خرابیاں دلوں میں رنجشیں پیدا کرتی اور رشتوں میں پھوٹ ڈالتی ہیں جو کہ شیطان کا پسندیدہ کام ہے لہٰذا اللہ کے بندوں کو چاہئے کہ ہمیشہ خیر کی بات کہیں، نرم لہجے میں کہیں اور موقع محل کی مناسبت سے کہیں، مخاطب کی عزت نفس اور وقار ملحوظ خاطر رہے تاکہ کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور رشتوں میں خیر و محبت قائم رہے۔

یہ بھی پڑھئے: طنزیہ باتیں کرکے دلوں کو توڑنے کے بجائے دوسروں کے درد کو کم کرنے کی کوشش کریں

 بہتر گفتگو کے آداب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ گفتگو مخاطب کی ذہنی اور علمی استعداد، اس کے ذوق اور معیار کے مطابق ہو، ایک عام سوچ یا کم علم رکھنے والے کے ساتھ عالمانہ گفتگو بے فائدہ اور وقت کا زیاں ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ بہترین بات وہی ہے جو مختصر، مدلل اور جامع ہو لہٰذا چھوٹی سی بات کو خواہ مخواہ طول دینے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے اجتناب بھی ضروری ہے، گفتگو کی غیر ضروری طوالت اور رنگ آمیزی سننے والوں کے لئے نہ صرف بےزاری اور کوفت کا باعث بنتی ہے بلکہ ایسی باتیں انہماک اور توجہ سے سنی بھی نہیں جاتیں۔ دوسروں کی بات کو صبر اور توجہ سے سننا عموماً لوگوں پر گراں گزرتا ہے، جلدباز اور بے صبر فطرت کے حامل افراد بات چیت کے دوران بار بار قطع کلامی کے عادی ہوتے ہیں جس کے باعث اکثر اوقات گفتگو تلخ کلامی تک جا پہنچتی ہے لہٰذا اچھا سامع بننا اور دوسروں کی بات صبر و تحمل سے سننا بھی اہم ہے۔
زنگی ترش روئی، تلخ کلامی، توازن و اعتدال سے عاری اور آخرت کی جوابدہی سے بے پروا ہو کر برے اطوار کے ساتھ بھی گزاری جا سکتی ہے اور نیکی و خیر خواہی کے ساتھ بہتر طریقے سے بھی۔ تاہم، بد اعمالی و بے اعتدالی سے گزاری گئی زندگی انسان کو نہ دنیا میں کوئی عزت و مرتبہ عطا کرتی ہے اور نہ ہی آخرت میں کوئی بہتر مقام، اس کے برعکس جو لوگ زندگی کو حسن آداب کے ساتھ، تصنع اور بناوٹ سے دور ظاہری و باطنی پاکیزگی کا خیال رکھتے ہوئے اور زبان و کلام کی خوبصورتی و نرمی کے ساتھ گزارتے ہیں وہ انسانوں کی اس بھیڑ میں نہ صرف الگ اور ممتاز مقام بنا لیتے ہیں بلکہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں اچھے لفظوں میں یاد کئے جاتے ہیں۔ 
 یہ ثابت ہے کہ شائستہ و شیریں زبان ہر تعلق کی استواری کی بنیاد ہے۔ لہٰذا کوشش کریں کہ ہم اور ہماری اولاد کی بد گوئی، تلخ کلامی یا رویوں کی سختی کسی کی دل آزاری یا رشتوں کے ٹوٹنے کی وجہ نہ بن سکے اور ہم بھی لوگوں کے دلوں میں اچھی یاد بن کر رہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK