Inquilab Logo

طنزیہ باتیں کرکے دلوں کو توڑنے کے بجائے دوسروں کے درد کو کم کرنے کی کوشش کریں

Updated: April 30, 2024, 1:10 PM IST | Farhi Naeem | Mumbai

کہتے ہیں کہ الفاظ اپنا اثر رکھتے ہیں، کبھی نرم و ملائم و نازک احساسات کو جگانے، کبھی خوشی و مسرت کی پرواز کرنے میں مدد گار، تو کبھی حوصلے و جوش سے پُر.... لیکن کبھی یہی حروف کا مجموعہ سخت و ترش بن کر شخصیت کو معدوم کر دیتا ہے۔

Instead of making fun of other people`s problems, reach out for help. Photo: INN
دوسروں کے مسائل کا مذاق بنانے کے بجائے مدد کے لئے ہاتھ بڑھائیں۔ تصویر : آئی این این

کہتے ہیں کہ الفاظ اپنا اثر رکھتے ہیں، کبھی نرم و ملائم و نازک احساسات کو جگانے، کبھی خوشی و مسرت کی پرواز کرنے میں مدد گار، تو کبھی حوصلے و جوش سے پُر.... لیکن کبھی یہی حروف کا مجموعہ سخت و ترش بن کر شخصیت کو معدوم کر دیتا ہے۔ انہی الفاظ کو اگر جملوں یا فقروں کی ترتیب دے دی جائے تو زیادہ اثر پذیری دکھاتے ہیں۔ لیکن جب یہ فقرے، سوالات کی صورت ڈھل جائیں اور وہ بھی کاٹ دار شکل میں، تو پھر ان کے اثرات بہت برے ہوتے ہیں۔
 آج ہر کوئی اپنی پریشان زندگیوں سے نمٹنے میں کوشاں، اس کے باوجود ہم دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے، اسے کھنگالنے، دخل در معقولات کرنے، بے جا مداخلت کرنے، تجسس و تحقیق کے موجد، تشویش، تفتیش کے شوقین بنے ہر خاندانی مسائل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ سوال، سوال، سوال، ہر ایک سے اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کے لئے ان گنت سوالات، ہمارے پوچھے جانے والے سوالات دوسروں کو مشکل میں ڈالتے ہیں۔
 درجنوں موضوعات چھوڑ کر ہم نے دوسروں سے ان کی نجی زندگی کے متعلق کچھ ضروری اور اہم سوال ضرور کرنے ہیں.... کیوں؟ اس کا ہمارے پاس کوئی خاص جواب نہیں، شاید معلومات عامہ میں اضافے کے لئے، یا دوسروں تک پہنچانے کے لئے، یا کسی جذبہ کی تسکین کے لئے، یا بس یونہی، اب کوئی بات کرنے کا موضوع نہیں تو یہی پرچہ سوالات اس کے ہاتھ میں تھما دیا جائے (حالانکہ جواب دینے والے کو تیاری کا موقع بھی دستیاب نہ ہو سکا)۔
 دوسرے کو موقع دیئے بغیر، اور اس دوران اس کو کتنا برا لگا، کتنی مرتبہ دل پر آرے چلے، نہ تو پوچھنے والے کو اندازہ نہ مداوا، اپنی پسند کا جواب نہیں مل سکا تو خفگی اور غصے کا اظہار بھی کرلیا۔کس کی زندگی کیسی ہے؟ کیا یہاں مسائل نہیں؟ مجبوریاں،پریشانیاں نہیں؟ مشکلات نہیں، ہر کوئی خوشیوں کے ہنڈولے میں بیٹھا جھول رہا ہے یا دکھوں کو اپنی استعداد سے بڑھ کر جھیل رہا ہے؟ 
 اگر سامنے والے نے کوئی جواب نہیں دیا تو ہم خود ہی اندازہ لگا لیتے ہیں۔ خود ہی عدالت لگاتے ہیں، خود ہی ملزم ٹھہراتے ہیں، ناکردہ جرم کا سزاوار بنا کر مجرم بھی بنا دیتے ہیں۔ وکیل بھی خود، منصف بھی خود اور پھر اپنی پسند کی فرد جرم بھی عائد کرنے میں کوتاہی نہیں برتی جاتی۔ ایسا کرتے وقت ہم ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔
 اپنے سوالات کے جوابات کے مطالب بھی اپنی مرضی کے نکال کر ان کو ایک نئی صورت میں ڈھال کر آگے بڑھا دیتے ہیں۔ یہ ہمارے عمومی رویے ہیں، جن کی جتنی بھی تکذیب کی جائے، وہ کم ہے، ہم ادھیڑ نے میں ماہر، مگر رفو گری میں کمزور ہیں۔ افسوس ہم اپنی عادت بدلنا نہیں چاہتے، لیکن دوسروں کی زندگیوں کے متعلق سوالات کرکے، سامنے والے کو پریشانی میں مبتلا کرنا خوب جانتے ہیں۔ کیا کسی نسخہ میں درج ہے کہ آپ کسی سے ملاقات کرتے ہی، اسے اپنے سوالات کی زد میں لے لیں، اس کی نجی زندگی مثلاً شادی، بچے، نوکری، کاروبار، علاحدگی، وغیرہ کے معاملات کے متعلق چبھتے، نوکیلے سوالات کریں اور اگر وہ کسی مجبوری سے ٹالنے کی کوشش کرے تو مزید دھار تیز کرلیں۔ 
 یاد رکھیں، ہر کسی کے حالات یکساں نہیں ہوتے، باطنی معاملات کبھی ظاہری حالات سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ خوش نصیبی ہر کسی کے دروازے پر دستک نہیں دیتی۔ گھر میں بیٹیاں ہوں، تو گھر والوں سے زیادہ ارد گرد کے لوگوں کو اس کی فکر، خیر سے رشتہ طے ہو گیا تو اب شادی کی پریشانی، شادی ہو گئی تو اولاد کے متعلق کھوج اور پھر پہ در پہ وہی کٹیلے سوال، جن سے بچنے کے لئے اب لوگوں نے ایک دوسرے سے ملنے سے گریز کرنا شروع کر دیا۔ 
 لوگوں کے دلوں میں رہنا سیکھیں، ان سے ہمدردی و پیار و خیر خواہی کیجئے، ان سے سوالات نہیں بلکہ ان کے مسائل کے حل تلاش کریں، اپنی ذات کو ان کے لئے مددگار بنائیں، تاکہ ہر مشکل میں وہ آپ کو پکاریں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب دل میں تجسّس کے بجائے خلوص کے جھرنے ہوں، جس میں ہر کسی کے لئے مدد کا جذبہ جوش مارتا ہو۔ اپنی شخصیت سنوارنا، ہمارے ہاتھ میں ہے۔
 اپنی خامیوں پر قابو پانا ممکن ہے، لیکن اس کے لئے کوشش کرنی ہوگی۔ ایسے سوالات کو اپنی زبان کی نوک پر ہی ٹھہرا لیں۔ لوگ گرم شعاعوں سے بچنے کے لئے چھاؤں چاہتے ہیں، جو آسانی سے میسر نہیں ہوتی، آپ وہ چھپر چھاؤں بن جائیں، جس کو ڈھونڈا جاتا ہے، جو نظر آجائے تو لوگ اس طرف دوڑتے ہیں، اور اس کے سائے میں کچھ پل بھی ٹھہریں تو چین و امن محسوس ہوتا ہے، ٹھنڈا، پرسکون، فرحت نما احساس، لہٰذا کسی کو درد دینے سے قبل ہی ان کا مرہم بن جائیں۔ یقین کریں آپ بلند مقام پا لیں گی۔ اگر آپ کی میٹھی بات سن کر سامنے والا اپنا کوئی راز بتا رہا ہے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے اپنے تک ہی رکھیں۔ دوسروں کی تکلیف کا تماشا نہ بنائیں۔ موجودہ دور میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کا درد کم کیا جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK