Inquilab Logo

ایک ایک عنوان پر ۳؍ نسلوں کی رائے: بیٹیاں پرائی دولت نہیں ہوتیں

Updated: March 08, 2023, 1:38 PM IST | oodhni desk | Mumbai

ان عنوانات کے تحت انقلاب نے ۳؍ مختلف نسلوں کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔ اس کالم میں نانی، دادی، بیٹی، بہو، پوتی اور نواسی نے اپنے زمانے کے مطابق مذکورہ بالا عنوانات پر اپنی رائے پیش کی ہے:

Right to Left: (Grandmother) Shireen Abdul Hafeez, (Daughter) Afrin Asif Momin and (great-grandson) Thasat Asif Momin
دائیں سے بائیں: (نانی) شیرین عبدالحفیظ، (بیٹی) آفرین آصف مومن اور (نواسی) ثبات آصف مومن

نانی، بیٹی اور نواسی

بیٹیاں سرمایۂ انمول ہیں 
’’بیٹی پرائی دولت نہیں ہوتی....‘‘ کم از کم مسلم معاشرے میں یہ سوچ قطعی نہیں ہونی چاہئے کہ بیٹیاں پرائی دولت ہیں۔ اُسے بڑا کرکے تعلیم و تہذیب سے مزین کرکے سسرال بھیج دینا ہے اور وہی اس کا گھر ہے اور میکہ اب صرف دو گھڑی کا ٹھکانہ ہے اور بس! جی نہیں، میرے عزیزو! یہ فکر اور سوچ یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ اپنی بچی کے تئیں اپنی جان چھڑا کر دامن بچا کر نکل جانا چاہتے ہیں۔ بیٹیاں سرمایۂ انمول ہیں ان کے خلوص پیار اور قربانی کی مثال نہیں۔ کسی اور رشتے سے بیٹی کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو خاصیتیں اللہ تعالیٰ نے بیٹی کو عطا کی ہیں وہ بیٹوں میں ناپید ہیں۔ بیٹیوں کا اپنے والدین بھائی بہن کے تئیں جو کردار ہے اُسے لکھنے کے لئے الفاظ تلاش کرنا پڑیں گے۔ میرا مشورہ ہے کہ بھائیوں اور میکہ والوں کا سلوک غیر منصفانہ ہے تو بدظن نہ ہوں صبر کریں۔ مَیں کیا انہیں صبر کی تلقین کروں وہ تو خود مجسمۂ صبر و وفا ہیں۔ دنیا کی ہر بیٹی کو بھائی اور میکہ دے تو خلوص اور پیار کرنے والا ہو اُس کے لئے جان چھڑکنے والے ہوں۔ بیٹیاں پرائی دولت نہیں یہ سوچ اُن کے دل سے نکل جائے۔ بہن کی ہر تکلیف کو اور ہر خوشی کو اپنا سمجھیں یہی میری اول و آخر دعا ہے۔
شیرین عبدالحفیظ (نانی)
میری بیٹی، میری دولت ہے
دولت وہ بھی پرائی کون بدبخت ہوگا جو ہاتھ آئی دولت کو پرائی کر دے گا۔ جی ہاں! آپ کے خیال میں دولت سے مراد مادی دولت ہے نا! جی نہیں۔ مَیں اس دولت کی بات کر رہی ہوں جو ایک بیٹی کی شکل میں ہمیں اللہ نے نوازا ہے۔ اس عظیم دولت کا بارگاہ خداوندی میں جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔
 مگر ہمارے معاشرے میں بیٹی کو پرائی سمجھ ہی اُسے تعلیم بھی دی جاتی ہے کہ کہاں اسے ہمیشہ یہاں رہنا ہے ایک دن تو اِسے جانا ہے۔ اور جس دن بیٹی کے ہاتھ پیلے ہوئے اُس کی طرف سے ساری ذمہ داریاں ختم سمجھتے ہیں اور اُس کا ایک دن کا میکہ میں آنا بھی ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ آج کے اس خود غرض ماحول میں بیٹی اور بہن کو جس طرح کچلا اور نظرانداز کیا جا رہا ہے یہ روز روشن کی طرح عیاں ایک حقیقت ہے۔ یہ وہی پیاری سی ننھی سی بیٹی ہے جو تین چار سال کی عمر سے شادی تک اور شادی کے بعد بھی اُسے ہر گام پر اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گے ہماری تکلیف اُسے تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے اور ہماری خوشی میں خوشی سے سرشار بیٹی ہی ہوتی ہے یہ شیوہ پرایوں کا نہیں اپنوں کا ہوتا ہے تو بھلا وہ پیاری سی بیٹی پرائی کیسے ہوگئی۔ اُسے پرائی نہ سمجھیں ہمیشہ اُسے احساس رہے کہ ہم اُسکے ساتھ ہیں۔ اُسے پرائے پن کا احساس نہ ہونے دیں۔
آفرین آصف مومن (بیٹی)
پرائی نہیں پیاری دولت
بیٹیوں کیلئے ’’پرائی دولت‘‘ کے الفاظ برسہا برس سے استعمال ہوتے آرہے ہیں۔لیکن مَیں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ بیٹیاں ’’پرائی دولت‘‘ نہیں ’’پیاری دولت ‘‘ ہوتی ہیں۔ اور یہ دولت میکے میں بھی ہونی چاہئے اور سسرال میں بھی۔ بیٹی ہو یا بیٹا، دونوں ہی کو والدین کی جانب سے یکساں محبت اور تحفظ ملنا چاہئے لیکن ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو ’’پرائی دولت‘‘ اور بیٹوں کو ’’خاندان کا چراغ‘‘ کہا جاتا ہے۔شاید ہمیں پرائی دولت اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہمیں نکاح کرکے دوسرے گھر میں جانا ہوتا ہے۔ نکاح ایک سنت ہے۔ اس سے دو خاندان جڑتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کی بیٹی دوسروں کی ہوگئی ہے۔ وہ اب بھی آپ ہی کی بیٹی ہے اور سسرال میں ایک بہو کے فرائض بھی نبھا رہی ہے۔
 شادی کے بعد لڑکی کے نام کے آگے اس کے شوہر کا نام اور سرنیم لگ جاتا ہے لیکن جب بھی لڑکی کے ماضی کی بات کی جائے گی تو اس کے نام کے آگے اس کے والدین ہی کا نام آئے گا کہ فلاں لڑکی فلاں صاحب کی بیٹی ہے۔ غور کریں تو لڑکی شادی کے بعد بھی دونوں خاندانوں کے افراد کے درمیان اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دونوں ہی خاندانوں کو دل کی گہرائیوں سے اپنا لیتی ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شادی سے پہلے یا شادی کے بعد اسے دونوں خاندانوں میں مستقل طور پر جگہ نہیں ملتی۔ والدین کہتے ہیں کہ ایک دن یہ ہمارا گھر چھوڑ کر سسرال چلی جائے گی اور سسرال والوں کیلئے وہ ہمیشہ ایک ’’بیرونی‘‘ ہی رہتی ہے۔ اسلام میں عورتوں کا مقام بہت بلند ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماں کے نام کے ساتھ پکارا جائے گا۔ اگر ہمارا مذہب خواتین کو یہ اہمیت دیتا ہے تو معاشرے کو اس بات کی اجازت کس نے دی کہ وہ بیٹیوں کو ’’پرائی دولت‘‘ سمجھے اور کہے۔
 آج دنیا کے ہر شعبے میں خواتین اپنی علاحدہ شناخت بنارہی ہیں۔ بیٹی اور بہو کے روپ میں ترقی کی منازل طے کررہی ہیں۔ اب معاشرے کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ بیٹیاں پرائی دولت ہیں یا نہیں
ثبات آصف مومن (نواسی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK