ایف بی آئی کی درخواست پر انہیں ڈھونڈا گیا ہے، ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ باقیات کن لوگوں کی ہیں۔
EPAPER
Updated: May 13, 2025, 2:23 PM IST | Agency | Damascus
ایف بی آئی کی درخواست پر انہیں ڈھونڈا گیا ہے، ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ باقیات کن لوگوں کی ہیں۔
پیر کو قطر کے ایک بیان کے مطابق شام کے ایک دور افتادہ قصبے سے قطری سرچ ٹیموں اور ایف بی آئی کی سربراہی میں تلاش کے دوران ۳۰؍ افراد کی باقیات ملی ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ داعش گروپ کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔ قطر کی داخلی سیکورٹی فورسز نے کہاکہ ایف بی آئی نے تلاش کی درخواست کی تھی اور فی الحال لوگوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ جاری ہیں۔ قطری ایجنسی نے یہ نہیں بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسی کسے تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امدادی کارکنان اور صحافیوں سمیت درجنوں غیر ملکیوں کو داعش کے دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ انہوں نے نصف عشرے تک شام اور عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کیے رکھا تھا اور نام نہاد خلافت کا اعلان کیا تھا۔ داعش گروپ ۲۰۱۷ء کے آخر میں اپنے زیرقبضہ بیشتر علاقے سے محروم ہو گیا اور ۲۰۱۹ء میں اسے شکست خوردہ قرار دے دیا گیا۔ اس وقت سے اب تک شمالی شام میں درجنوں قبرستان اور اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں جن میں ان لوگوں کی باقیات اور لاشیں دفن ہیں جنہیں داعش نے گزشتہ برسوں میں اغوا کیا تھا۔
امریکی صحافی جیمز فولی اورا سٹیون سوٹلوف کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کے کارکنان کیلا مولر اور پیٹر کیسگ داعش کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ ایک برطانوی نامہ نگار جان کینٹلی کو ۲۰۱۲ء میں فولی کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا اور انہیں آخری بار ۲۰۱۶ء میں انتہا پسند گروپ کی ایک پروپیگنڈا ویڈیو میں زندہ دیکھا گیا تھا۔ تلاش کی یہ کارروائی شام کی ترکیہ کے ساتھ شمالی سرحد کے قریب واقع قصبے دابق میں کی گئی۔ شام کے سابق صدر بشار الاسد کے زیرقبضہ علاقوں میں بھی اجتماعی قبریں ملی ہیں۔
الاسد نے اپنی بدنام زمانہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو برسوں تک مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے استعمال کیا جن میں سے کئی لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے ۲۰۲۱ء میں اندازہ لگایا تھا کہ ۲۰۱۱ءمیں شروع ہونے والی بغاوت اور ۱۳؍سالہ خانہ جنگی کے دوران ایک لاکھ ۳۰؍ہزار سے زیادہ شامی شہری اغوا اور لاپتہ ہو گئے۔