حالات حاضرہ میں جس طرح ٹیکنالوجی سے لوگوں کا رشتہ استوار ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کے بے شک یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی!
EPAPER
Updated: November 08, 2023, 1:13 PM IST | Samira Gulnar Mohammad Jilani | Nanded
حالات حاضرہ میں جس طرح ٹیکنالوجی سے لوگوں کا رشتہ استوار ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کے بے شک یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی!
حالات حاضرہ میں جس طرح ٹیکنالوجی سے لوگوں کا رشتہ استوار ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کے بے شک یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی! ایک وقت ہوا کرتا تھا جب لوگ کتابوں کو تنہائی کا ساتھی اور ایک بہترین رفیق سمجھتے تھے۔ جب بھی اکیلے ہوتے تھے کتب بینی کا مشغلہ اپناتے تھے۔
موجودہ دور میں لوگ ٹیکنالوجی سے زیادہ جڑ رہے ہیں اور کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں جس کی بہترین مثال یہ ہے کہ آج ہر فرد کے پاس چاہے امیر ہو یا غریب موبائل موجود ہے اور لوگ موبائل کے ذریعے سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ آج کل کم و بیش ہی ایسے لوگ نظر آئیں گے جنہیں کتابوں سے لگاؤ ہو اور وہ کتابوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوں اور کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے ہوں۔ کتب بینی یا مطالعہ کرنے سے شخصیت میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔ معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ کتابوں کے ذریعے ہی ہمیں اپنےاسلاف کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے طرز زندگی اور احوال معلوم ہوتے ہیں ۔ گزشتہ ادوار میں حالات کس طرح کے تھے؟ ہمارے اسلاف نے کس طرح دشمنوں کا سامنا کیا تھا؟ مشکل حالات میں کس طرح کے فیصلے کئے تھے؟ ان تمام باتوں کا علم کتابوں ہی سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کتابوں ہی سے ہمیں دنیا وہ اطراف میں رہنے والے لوگ اور ان کی طرز زندگی ان کی معاشی و اقتصادی حالات کا علم ہوتا ہے۔ غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، سائنسی، تاریخی، دینی و دنیاوی.... ہر طرح کی معلومات ہمیں کتابوں کے مطالعے سے مل جاتی ہے۔ بشرطیکہ ہم ان کتابوں کو کھول کر ان کا مطالعہ کریں۔
ہمارے اسلاف کے مطالعے کا یہ عالم تھا کہ:
ابن خیاط نحوی کا مطالعہ ہر وقت کا مشغلہ تھا یہاں تک کہ راہ چلتے بھی مطالعے میں مصروف رہتے بسا اوقات وہ گڑھے میں جا گرتے۔
شیر میسور ٹیپو سلطان کے بارے میں آتا ہے کہ سلطنت و بادشاہت اور اپنی دیگر تمام مصروفیات کے باوجود رات کو سونے سے پہلے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور مطالعہ کرتے تھے۔
مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی کہ ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ مولانا ندوی کو کچھ آنے کہیں سے ملے ٹافی خریدنے کے بجائے کتابوں کے لئے دکان کی طرف دوڑ پڑے اور عمر کی غیر شعوری کا یہ حال کتب خانے کے بجائے میڈیکل اسٹور پہنچ گئے۔ (ماخوذ: آؤ قلم پکڑنا سیکھیں )
یہ ہمارے اسلاف تھے جنہیں کتابوں سے اس قدر دلچسپی تھی۔ مطالعے میں اس قدر منہمک رہتے تھے۔ موجودہ دور میں ہماری نوجوان نسل میں مطالعے کا فقدان پایا جاتا ہے انہی کتابوں سے زیادہ ٹیکنالوجی سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ مانا کہ آج کے گلوبلائزیشن کے دور میں دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے اور ایک چھوٹے سے آلے میں قیدہو کر رہ گئی ہے جو بھی معلومات درکار ہو موبائل پر چند انگلیاں گھمانے سے مل جاتی ہے مگر کچھ حقائق ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے کتابوں کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ آج کے دور میں چند گنے چنے افراد ہی ایسے ملیں گے جو مطالعہ کتب کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوں گے۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم نوجوان نسل میں کتب بینی کا شوق پیدا کریں ۔ مطالعے کے ذریعے انسان کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ انسان کے کردار کی مثبت تعمیر ہوتی ہے جس سے معاشرے میں فرد کی ایک پہچان بنتی ہے۔
مطالعہ یا کتب بینی کے شوق کو موجودہ دور میں نوجوان نسل میں پروان چڑھانا بے حد ضروری ہے ورنہ:
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی!