Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہماری زندگی میں قوانین کی پاسداری کیوں ضروری ہے؟

Updated: July 05, 2022, 11:55 AM IST | Sheikh Saeedah Ansari | Mumbai

قوانین اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا نظم و ضبط، مستقل مزاجی اور استحکام کا پابند بناتا ہے۔ قوانین وضاحت کرتے ہیں کہ ایک فرد کے کیا فرائض ہیں اور کیا جواب دہی ہے تو ان کی ادائیگی پر ہی ایک مستحکم ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھے

Mothers have an important responsibility to educate their children about civic responsibilities from an early age.Picture:INN
کم عمر ہی سے بچّوں کو شہری ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا ماں کی اہم ذمہ داری ہے۔ تصویر: آئی این این

اپنی مرضی کے محور پر گھومنا، اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق بغیر کسی اصول کے تحت زندگی گزارنا ایک غیر انسانی رویہ ہے جو زندگی کو بے ترتیبی اور بے اعتدالی کی طرف گامزن کرتا ہے۔ اس کے برعکس قوانین اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا نظم و ضبط، مستقل مزاجی اور استحکام کا پابند بناتا ہے۔ قوانین وضاحت کرتے ہیں کہ ایک فرد کے کیا فرائض ہیں اور کیا جواب دہی ہے تو ان کی ادائیگی پر ہی ایک مستحکم ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ قوانین فرد اور فرد کے، فرد اور گھرکے، فرد اور ماحول کے درمیان ایک منظم تعلق کی بنیاد رکھتے ہیں جو ایک بہتر انسان، بہتر گھر اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ قوانین کی پاسداری کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ یہ ایک دم ہی تخلیق نہیں پاتی ہے بلکہ اس کی تخلیق لمحہ بہ لمحہ ہوتی ہے۔ انسان پیدائشی طور پر ایک ’’نقلی جانور‘‘ ہے۔ وہ نقل کرتا ہے۔ عملی طور پر جو گھر کا ماحول ہے عمل کا ایک قدم ہزار زبانی نصیحتوں پر بھاری ہوتا ہے اور یہ پتھر کی لکیر ثابت ہوتا ہے۔ مذہب اسلام تو عملی قوانین کا شہکار ہے جو زندگی کے ضوابط ِ حیات ہیں۔ جب والدین کی سوچ ان تعمیری ضوابط ِ حیات کا مرکز ہوگی تو بچّے کی تربیت کا انداز مثالی ہوگا۔ کھانے کے آداب، پانی پینے کے آداب، سونے کے آداب، گھر میں کیسے داخل ہونا ہے اور کیسے باہر جانا ہے۔ اگر ان قوانین کا عملی مظاہرہ ہے تو بچّے بغیر کسی دباؤ کے یا نصیحت کے اپنانے لگتے ہیں۔ عہد طفولیت سے ہی قوانین کے تئیں ایک مثبت جذبہ فروغ پاتا ہے جب یہ باہر کی دُنیا میں جاتے ہیں تو یہ خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔
 قوانین کی پاسداری سے صبر و تحمل، قوتِ برداشت کو فروغ ملتا ہے۔ آج کل ا س کے برعکس قوانین کی پامالی ایک عام بات ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر جو معاشرے کی ایک اہم اکائی ہے جو معاشرے کے مزاج کی نمائندگی کرتا ہے وہاں پر قوانین کی تربیت کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچّے اور نوجوان قوانین کی پاسداری کو بزدلی کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ بزدلی کی نہیں اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے اس کو باور کرانا آج کے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اکثر دیواروں پر لکھا ہوتا ہے یہاں پرپوسٹر لگانا منع ہے۔ گاڑی کھڑا کرنا منع ہے۔ پان کھا کے تھوکنا منع ہے وغیرہ وغیرہ۔ لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اکثر ان دیواروں پر پوسٹر لگے ملتے ہیں۔ پان وغیرہ کھا کے تھوکا رہتا ہے۔ قوانین کے تئیں اتنی نفرت اتنا منفی پن کیوں ہے؟ اگر نکاح کا وقت مغرب بعد ہے تو نکاح عشاء کے بہت بعد ہوتا ہے۔ وقت کی پابندی کا اتنا بھونڈا مذاق کہیں نہیں ہوگا۔ سونے پر سہاگہ افسوس تو دور ہٹ دھرمی سے یہ کہتے ہیں ’’چلتا ہے‘‘۔ ایک مشہور مثال ہے ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ جہاں ندامت محسوس ہونا ہے وہاں پر ایسی سوچ؟ ٹریفک قوانین، ٹریفک کی بہتر کارکردگی کے لئے ہوتے ہیں ان پر عمل آواری ہر شہری کا اولین فرض ہوتا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ٹریفک کے قوانین کو شدت سے توڑا جاتا ہے جس کی بدولت ٹریفک جام کا مسئلہ ایک عام بات ہوگئی ہے۔ ٹریفک قوانین کو توڑنے کے معاملے میں موٹر سائیکل سوار سب سے آگے ہیں۔ موجودہ دور کے نوجوان موٹر سائیکل پر بیٹھ کر نہ جانے کیا سمجھتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی سگنل کا لال نشان نظر ہی نہیں آتا۔ موٹر سائیکل سوار کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی وہ پَر لگا کر اُڑنے لگیں گے۔ اکثر تیز موٹر سائیکل سوار سے لوگ پریشان نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی تیز رفتاری دوسروں کے لئے نقصاندہ ثابت ہوتی ہے۔ نوجوان ملک کا اہم سرمایہ ہوتے ہیں۔ انہیں قوانین توڑنے کے بجائے اس پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ایک اچھا شہری ہونے کا ثبوت پیش کرنا چاہئے۔ ملک میں قوانین نظم و ضبط قائم کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ یہ بات ہر کسی کو سمجھ لینا چاہئے کہ قانون کے بغیر آپ کی زندگی بے ترتیب ہو جائے گی۔ اس کا اثر آپ کی ذاتی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ اپنی زندگی کو منظم بنانے کے لئے ضروری ہے کہ قوانین کی پاسداری کی جائے۔ اس کام کے لئے خواتین کو کوشش کرنی چاہئے۔ خواتین، اس معاشرے کا نصف حصہ ہے۔ وہ ایک بہتر ماں ہوتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے معاشرے کو بہتر پیغام دے سکتی ہیں۔ کم عمر سے اپنے بچّوں کو قوانین کا پابند بنائیں، یہی بچّے آگے چل کر بہتر شہری ثابت ہوں گے۔
 جس طرح بے لگام بڑھتی ہوئی جھاڑیوں کو تراش خراش کر ایک خوبصورت وضع قد و خال والا مجسمہ کی تشکیل ہوتی ہے اسی طرح قوانین کی پاسداری ہماری ہٹ دھرمی، بے جا غرور، نفرت اور غصے کو تراش خراش کر ایک بہتر انسان کی تشکیل ہوتی ہے جو خود کے لئے اور دوسروں کے لئے کارآمد ثابت ہوتا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK