’جیوتی کرانتی ‘ نامی تنظیم کی قیادت میں نکلنے والے اس جلوس کے ذریعے ’’رحم مادر میں دخترکشی ‘‘کی مخالفت کی گئی اور ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا
EPAPER
Updated: December 24, 2022, 11:50 AM IST | Solapur
’جیوتی کرانتی ‘ نامی تنظیم کی قیادت میں نکلنے والے اس جلوس کے ذریعے ’’رحم مادر میں دخترکشی ‘‘کی مخالفت کی گئی اور ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا
یہاںگزشتہ دو دن قبل کنوارے نوجوانوں نے شادی کے لئے انوکھا احتجاج کیا۔ کئی کنوارے نوجوان، دولہے کا لباس پہن کر اور گھوڑے پر سوارہوکر ضلع ادھیکاری کے دفتر پہنچے۔ ان دولہوں کے ہاتھ میں کئی پلے کارڈ تھے، جن پر ’’اس لڑکے کو کوئی لڑکی دے گا کیا، لڑکی ،شادی کیلئے، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ جیسے نعرے اور مطالبے درج تھے۔
تفصیلات کے مطابق ’جیوتی کرانتی ‘ نامی تنظیم کی قیادت میں ہونےو الے اس انوکھے احتجاج کا مقصد بڑا ہی سنجیدہ ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ریاست میں ’حمل میں جنس کی شناخت‘کے خلاف قانون(پی سی پی این ڈی ٹی ایکٹ) پر عمل درآمد ٹھیک ڈھنگ سے نہیں ہورہا ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ بچے اور بچیوں کی پیدائش کے تناسب میں بڑا فرق نظر آرہا ہے۔ لہٰذا مذکورہ قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اس طرح کا مطالبہ سابق صدر بلدیہ رمیش بارسکر کی جانب سے بھی کیا گیا ہے۔
کنوارے نوجوانوں نے شادی کے لئے دلہن کا مطالبہ کیا اور اس کے لئے مورچہ نکالا۔ شولاپور کے ہوم میدان سے ضلع ادھیکاری دفتر تک یہ مورچہ نکالا گیا ۔ جس میں مظاہرین دولہے کا لباس پہن کر اور گھوڑے پر سوار ہوکر مورچہ میں شامل ہوئے۔ ’’یہ لڑکا کنوارہ ہے، کوئی شادی کے لئے اسے اپنی لڑکی دے گا‘‘ اس طرح کے بینر بھی ہاتھوں میں اٹھائے یہ مظاہرین نعرے بازی بھی کررہے تھے۔ رمیش بارسکر نے کہا کہ ’’نوجوانوں کی عمر ۲۰،۳۰،۳۵؍ حتیٰ کہ ۴۰ ؍سال ہوجارہی ہے لیکن ان کی شادی نہیں ہورہی ہے۔ ان کےو الدین کی حالت بھی ٹھیک نہیں رہتی ہے۔ کسی کو ہارٹ اٹیک آرہا ہے تو کسی کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیا ہے، کسی کو بلڈپریشر کی شکایت تو کسی کو کچھ۔ کیرالا میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے ۱۰۵۰؍ لڑکیوں کی پیدائش درج کی جارہی ہے۔ قومی سطح پرپیدائش کا تناسب ایک ہزار لڑکے اور ۹۴۰؍ لڑکیاں ہیں، لیکن مہاراشٹر میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی پیدائش ۸۸۹؍ ہے۔ یہ تفاوت ، رحم مادر میں جنس کی شناخت کرکے حمل کو ضائع کردینے کے سبب ہورہاہے۔ ایسے ہی معاملات کے سبب یہ حالت ہوگئی ہے اور اس کی ذمہ دار ریاستی حکومت ہے ۔