Updated: September 22, 2025, 6:57 PM IST
| Tal Aviv
برطانیہ، کنیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا جس پر اسرائیل میں شدید ردعمل اور سیاسی تقسیم پیدا ہوگئی۔ اس اقدام کو ایک طرف دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اسرائیلی قیادت اور اپوزیشن دونوں اسے حکومتِ نیتن یاہو کی ناکامی سے جوڑ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو۔ تصویر: آئی این این۔
برطانیہ، کنیڈا اور آسٹریلیا نے اتوار کو ایک ہم آہنگ اقدام میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیاجو غزہ پر اسرائیلی جنگ سے پیدا ہونے والی مایوسی اور دو ریاستی حل کو فروغ دینے کی کوشش کا نتیجہ تھا۔ اس فیصلے نے اسرائیل بھر میں غصہ بھڑکا دیا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں اس اقدام کو ’’حماس کیلئے انعام کے سوا کچھ نہیں ‘‘ قرار دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کا ردعمل اُن کی امریکہ سے واپسی پر اعلان کیا جائے گا، جہاں اُن کی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات طے ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’’اور میرے پاس آپ کیلئے ایک اور پیغام ہے، ایسا نہیں ہوگا۔ دریائے اردن کے مغرب میں فلسطینی ریاست قائم نہیں کی جائے گی۔ ‘‘
ان کے انتہا پسند اتحادیوں نے فوری کارروائی پر زور دیا
انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرے اور فلسطینی اتھاریٹی کو ’’مکمل طور پر کچل دے۔ ‘‘’ایکس ‘ پر لکھتے ہوئے، بن گویئر نے مزید کہا کہ وہ آئندہ کابینہ اجلاس میں مغربی کنارے کے انضمام کی تجویز پیش کریں گے۔ انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزلیل اسموترچ نے بھی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی حکومتوں کو اسرائیل کے مستقبل پر فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے کہا: ’’وہ دن گزر گئے جب برطانیہ اور دیگر ممالک ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرتے تھے۔ مینڈیٹ ختم ہو گیا ہے، اور اس ضدی فلسطینی ریاست کے خیال کو ہمیشہ کیلئے ایجنڈے سے ہٹانے کا واحد جواب یہ ہے کہ یہودی عوام کے آبائی وطن یعنی یہودیہ و سامریہ (مقبوضہ مغربی کنارہ) پر مکمل خودمختاری قائم کی جائے۔ ‘‘
اپوزیشن نے نیتن یاہو کو قصوروار ٹھہرایا
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپیڈ نے ایکس پر کہا کہ فلسطینی ریاست کو ’’یکطرفہ‘‘ تسلیم کرنا دہشت گردی کیلئے انعام ہے، مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس کا کچھ الزام نیتن یاہو حکومت پر بھی ڈالا۔ انہوں نے کہا: ’’ایک فعال اسرائیلی حکومت یہ سب پیشہ ورانہ سفارتکاری اور مناسب ڈپلومیسی کے ذریعے روک سکتی تھی۔ وہ حکومت جس نے ہمیں ہماری تاریخ کی بدترین سلامتی کی تباہی میں ڈالا، اب ہمیں سب سے سنگین سفارتی بحران میں بھی دھکیل رہی ہے۔ ‘‘اپوزیشن ڈیموکریٹس پارٹی کے سربراہ اور اسرائیلی افواج کے سابق نائب سربراہ یائر گولان نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اقدام کو ’’نیتن یاہو اور اسموترچ کی سنگین سیاسی ناکامی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ’’اسرائیل کی سلامتی کیلئے تباہ کن اقدام ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا: ’’یہ نیتن یاہو کی سیاسی غفلت کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ جنگ ختم کرنے سے انکار اور قبضے و انضمام کے خطرناک انتخاب۔ ‘‘
برطانیہ میں اپوزیشن لیڈر کیمی بیڈنخ نے حکومت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’دہشت گردی کا انعام‘‘ ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا: ’’ہم سب اس دن پر پچھتائیں گے جب یہ فیصلہ کیا گیا۔ بغیر کسی شرط کے حماس کو انعام دینا۔ یہ مغویوں کو غزہ میں قید رکھتا ہے اور اس جنگ میں پھنسے بے گناہ لوگوں کی تکالیف کو ختم نہیں کرتا۔ ‘‘واشنگٹن سے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یورپی حکومتوں کو فلسطین کو تسلیم کرنے سے خبردار کیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ انہیں اسرائیل کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روبیو نے مزید کہا کہ امریکہ مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی انضمام کو روکنے کیلئے مداخلت نہیں کرے گا اور دلیل دی کہ تسلیم کرنا ’’غزہ میں امن معاہدہ حاصل کرنا مزید مشکل بنا دیتا ہے۔ ‘‘
مزید ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے والے ہیں
۱۵ نومبر ۱۹۸۸ء کو آزادی کے اعلان کے بعد سے فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے ۱۹۳ رکن ممالک میں سے ۱۴۷ ؍نے تسلیم کیا ہےجبکہ آئرلینڈ، اسپین اور ناروے نے گزشتہ سال یہ فیصلہ باضابطہ طور پر کیا تھا۔ یہ تعداد بڑھ کر ۱۵۷؍ تک پہنچنے کی توقع ہے کیونکہ کئی دیگر ممالک، جن میں بلجیم، فرانس اور پرتگال شامل ہیں، اس ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والے ہیں۔
آسٹریلیا نے فیصلہ کا دفاع کیا
آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے اپنی حکومت کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا، جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس اقدام کو ’’دہشت گردی کیلئے ایک انعام‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے اتوار کو نیویارک میں اقوام متحدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’آسٹریلیا نے فلسطین کو تسلیم کرنے کی جو پوزیشن اختیار کی ہے، وہ ہماری طویل مدتی دو جماعتی پالیسی سے ہم آہنگ ہے۔ ہم دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔ ‘‘البانیز نے کہا کہ آسٹریلیا نے ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت ’’ایک مثبت کردار‘‘ ادا کیا تھا اور زور دیا کہ ’’دو ریاستوں کے قیام کا تصور اسی وقت کیا گیا تھا۔ ‘‘وزیر اعظم نے فوری جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی بحالی پر بھی زور دیا تاکہ ’’وہ انسانی تباہی دور کی جا سکے جو وہاں جنم لے رہی ہے۔ ‘‘
’طویل مدتی حل‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پائیدار امن کیلئے ’’طویل مدتی حل کی طرف بڑھنا‘‘ ضروری ہے تاکہ ’’اسرائیلی اور فلسطینی آئندہ امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ رہ سکیں۔ ‘‘یاد رہے کہ اس سے قبل اتوار کو البانیز نے اعلان کیا تھا کہ ’’آج، اتوار ۲۱ ؍ستمبر ۲۰۲۵ ءسے، دولتِ مشترکہ آسٹریلیا باضابطہ طور پر آزاد اور خودمختار ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔ ‘‘