Inquilab Logo

قندھار میں نماز جمعہ کےدوران مسجد میں بم دھماکہ

Updated: October 16, 2021, 12:45 PM IST | Agency | Kabul

؍ ۳۲؍ افراد جاں بحق، ۵۰؍ سے زائد زخمی،اسپتال میں زخمیوں کے لائے جانے کا سلسلہ جاری، مزید ہلاکتوں کا خدشہ، ابھی تک کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی

 Picture of the street where the blast took place at the Fatima Mosque.Picture:INN
دور سے لی گئی اس گلی کی تصویر جہاں واقع مسجد فاطمہ میں دھماکہ ہوا تصویر: ایجنسی

افغانستان میں مسلسل دوسرے جمعہ کو ایک اندوہناک سانحہ پیش آیا ہے۔شہر قندھار میں کی ایک  مسجد میں جمعہ کی نماز کے دوران زور دار بم دھماکہ ہوا جس میں ۱۶؍ افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ ۳۲؍ لوگ زخمی ہیں۔ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب مسجد میں نماز جمعہ کا اجتماع جاری تھا۔ طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستے کا کہنا ہے ’’ قندھار شہر کے امام بارگاہ میں نماز جمعہ کے دوران دھماکہ ہوا ہے جس میں ہمارے کئی ہم وطن جاں بحق ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ’’ حکام کی جانب سے دھماکے کے حوالے سے تفصیلات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔دھماکے کی نوعیت کا تعین تاحال نہیں ہوا  ہے لیکن یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ خودکش دھماکہ تھا۔ فی الحال حکومت کی جانب سے ایک ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچ گئی ہے۔‘‘ اس دوران ایک مقامی ڈاکٹر نے  بتایا کہ زخمی نمازیوں کو میرواعظ اسپتال لے جایا گیا ہے۔ ایک عالمی نیوز ایجنسی کے مطابق یہ دھماکہ قندھار شہر کے پولیس ڈسٹرکٹ ون میں ہو جہاں بی بی فاطمہ مسجد میں  جمعہ کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ایک  رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ  امام بارگاہ میں تین دھماکے ہوئے، پہلا دھماکہ مرکزی دروازے پر ہوا، دوسرا وضو خانے میں اور تیسرا دھماکہ شمالی حصے میں ہوا۔دھماکہ اتنا خوفناک تھا کہ آس پاس کی عمارتوں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ دھماکے کے بعد ہر طرف انسانی اعضا بکھر گئے اور مسجد کا فرش خون سے سرخ ہوگیا۔ نمازیوں کی چیخ و پکار قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ اہنے عزیزوں کی تلاش میں مسجد کے گردبڑی تعداد میں لوگ جمع ہونے لگے جس کی وجہ سے امدادی کاموں میںدقت پیش آ رہی تھی۔
  الجزیرہ نے ایک عالمی نیوز ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ایک عینی شاہد نے فون پر بتایا کہ  یہ ایک خود کش حملہ تھا اور کم ازکم ۴؍ حملہ خود کش حملہ آور اس میں شامل تھے۔ اس نے بتایا کہ دھماکے کے وقت کم از کم ۵؍ سو افراد مسجد میں موجود تھے اور حملہ آوروں نے اس بات کی کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ نمازی دھماکے کی زد میں آئیں۔  واضح رہے کہ شروع میں خبر آئی تھی کہ دھماکے میں کوئی  ۱۶؍ افراد کی موت ہوئی ہے لیکن  اسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ ( خبر لکھے جانے تک ) ۳۲؍ افراد فوت ہوئے ہیں جبکہ ۵۰؍ سے زیادہ زخمی ہیں۔ اور چونکہ  ابھی زخمیوں کو اسپتال لانے کا سلسلہ جاری ہے اس لئے    ہلاکتوں میں مزید اضافےکا خدشہ ہے۔اور یہ تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ 
  تاحال سرکاری ذرائع سے  مہلوکین  کی کوئی مصدقہ تعداد نہیں بتائی گئی ہے۔ ‘اس حملے کی ذمہ داری فی الحال کسی بھی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ جمعہ یعنی ۸؍اکتوبر کو افغانستان کے شہر قندوز میںبھی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماع کے دوران دھماکہ ہوا تھا۔اطلاع کے مطابق وہ بھی خود کش دھماکہ تھا جس میں کم ازکم ۵۰؍  افراد ہلاک اور ۱۰۰؍  سے زیادہ لوگ  زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم  داعش نے قبول کی تھی۔ داعش ماضی میں بھی متعدد مرتبہ افغانستان کی مختلف مساجد کو نشانہ بنا چکی ہے ۔ فی الحال  ان دونوں دھماکوں کے درمیان ایک بات مشترک ہے کہ یہ شیعہ برادری کی مساجد میں کئے گئے ہیں جو کہ افغانستان میں مسلکی تصادم میں پیدا کرکے شورش برپا کی جا سکے۔ 
  اگر الجزیرہ کی رپورٹ پر یقین کریں تو یہ ایک ’سیکوریٹی کارڈ‘ ہے۔ یعنی افغانستان میں سیکوریٹی کے انتظامات کو چیلنج کرنا ان دھماکوںکا مقصد ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق چونکہ طالبان بارہاں یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ افغانستان میں ان کے دور حکومت میں امن ہوتا ہے اور کوئی شورش نہیں ہوتی ۔ اس لئے کچھ طاقتیں اس طرح کے دھماکے کرکے طالبان کو چیلنج کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت میں بھی افغانستان محفوظ نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ۱۵؍ اگست کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں متعدد بم دھماکے ہو چکے ہیں جن میں سب سے پہلا دھماکہ کابل ایئر پورٹ پر ہوا تھا۔ اس میں داعش کا ہاتھ جواب میں امریکہ نے داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کا دعویٰ کرکے عام شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد بھی کئی حملے ہوئے جن میں قندوز اور اب قندھار میں مساجد میں حملے اہم ہیں ورنہ آئے دن طالبان اہلکاروں کی گاڑیوں اور  ان کے افسروں پر حملے ہو رہے ہیں۔  طالبان کچھ عرصہ پہلے داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا اورکئی اہم دہشت گردوں کو ختم کر دینے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن دھماکوں کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔  جمعہ کو ہونے والے دھماکے کے بعد علاقے میں خوف وہراس ہے اور لوگ مسجد کی جانب جانے سے ڈر رہے ہیں ۔ فی الحال وہاں پولیس ثبوت اکٹھا کرنے کا کام کررہی ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK