Inquilab Logo

متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کے بھی سروے کا حکم

Updated: December 15, 2023, 11:13 AM IST | Hameedullah Siddiqui | Lucknow

الہ آباد ہائی کورٹ نےکورٹ کمشنر کی تقرری کا مطالبہ منظور کرلیا،سروے کےطریقے اور شرائط کی وضاحت ۱۸؍دسمبر کو اگلی سماعت کے دوران ہوگی۔

Shahi Eid Gah located in Mathura which is of historical importance. Photo: INN
متھرا میں واقع شاہی عید گاہ جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ تصویر : آئی این این

متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد معاملے میں بھی مسلم فریق کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے ہندو فریق کی عرضی قبول کرتے ہوئے عیدگاہ احاطے کے سروے کاحکم دیاہے۔ ہائی کورٹ نے متھرا میں شری کرشن جنم بھومی مندر سے متصل شاہی عیدگاہ کمپلیکس کے سروے کے لئے عدالت کی نگرانی میں ایک کورٹ کمشنر کی تقرری کے مطالبے کو قبول کر لیا ہے، جس کےلئے ہندو فریق نے وارانسی کے گیان واپی کمپلیکس کی طرز پر متھرا میں سروے کرانےکے لئےعرضی داخل کی تھی۔ہائی کورٹ کی سنگل بنچ نے یہ فیصلہ دیاہے۔ معاملے کی اگلی سماعت ۱۸؍ دسمبر کوہوگی اور یہ فیصلہ کیا جائےگا کہ سروے کا خاکہ کیا ہوگا۔ الہ آبادہائی کورٹ نےمسلم فریق یعنی یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کے ان دلائل کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہندو فریق کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں ہے۔معاملے کی اگلی سماعت یعنی۱۸؍ دسمبر کویہ فیصلہ کیا جائےگا کہ سروے کا خاکہ کیا ہوگا۔ یعنی کب سے کب تک سروے کا کام کیا جائے گا اور کیمپس کے کن کن مقامات کا کیا جائے گا، سروے میں کتنے لوگ حصہ لیں گے۔طریقہ کار طے ہونے کے بعد ہائی کورٹ اعتراضات کی سماعت کرے گا۔
الہ آبادہائی کورٹ کے جسٹس مینک کمار جین کی سنگل بنچ نے یہ فیصلہ دیاہے۔ جسٹس مینک کمار جین نے اس سے قبل ۱۶؍ نومبر ۲۰۲۳ء کو متعلقہ فریقوں کو سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ اس دن متنازع احاطے سے متعلق ۱۸؍ میں سے ۱۷؍ درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ ان تمام درخواستوں کو سماعت کے لئے متھرا ڈسٹرکٹ کورٹ سے الہ آباد ہائی کورٹ میں منتقل کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ شری کرشن وراجمان اور۷؍دیگر فریقوں نے ایڈوکیٹ ہری شنکر جین، ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین، پربھاس پانڈے اور دیوکی نندن کے ذریعے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جس میں شری کرشن جنم بھومی سے متصل شاہی عیدگاہ کمپلیکس کا اے ایس آئی سروے کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ شاہی عیدگاہ کے مقام پر اس سےپہلے، شری کرشن جنم بھومی مندر تھا،جسے مغل حکمراں اورنگزیب کے دور میں مسمار کر کے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
 ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ہندو فریق کے وکیل ہری شنکر جین نے عدالت کے حکم کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ان کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ احاطے میں ایک کمل کی شکل کا ستون ہے جو ہندو مندروں کی خصوصیت ہے اور ہندو مذہبی نشانات ہیں اور نقش و نگارہیں جو واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ شاہی عیدگاہ مسجد اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے وکیل نے عدالت میں اعتراض درج کرایا تھا۔ مسلم فریقوں نے کہا کہ یہ عرضی قابل سماعت نہیں ہے اور اسے خارج کر دینا چا ہئے جسے عدالت نے قبول نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اب کورٹ کمشنر کی نگرانی میں شاہی عیدگاہ مسجدکی۱۳ء۳۷؍ ایکڑ اراضی کا سروے کیا جا سکتا ہے۔ یہ سروے مئی۲۰۲۱ء میں گیان واپی مسجد، وارانسی کے سروے جیسا ہوگا۔ اس میں کورٹ کمشنر کی ٹیم وہاں جائے گی اور ثبوت اکٹھا کرے گی ۔
غورطلب ہے کہ شاہی عیدگاہ معاملے میں ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو ایک معاہدہ طے پایاتھا۔ شری کرشنا جنم بھومی سیوا سنگھ اور شاہی عیدگاہ کمیٹی کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں ۱۳ء۳۷؍ ایکڑ زمین میں سے تقریباً ۲ء۳۷؍ایکڑ زمین شاہی عیدگاہ کے لئے دی گئی تھی۔تاہم ،معاہدے کے بعد شری کرشن جنم بھومی سیوا سنگھ کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔ ہندو فریق اب اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ شری کرشن جنم بھومی سیوا سنگھ کو مذکورہ معاملہ میں مذاکرات و مفاہمت کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظورکئے گئے پلیسز آف ورشپ ایکٹ بل کے مطابق متھرا واقع مذکورہ مسجد احاطہ کے مالکانہ حقوق پر سوال نہیں اٹھایا جانا چاہئے کیونکہ یہ قانون صاف طور پر کہتا ہے کہ آزادی کے وقت جس عبادتگاہ کی مالکانہ حیثیت جو بھی تھی اسے برقرار رکھا جانا چاہئے۔ صرف ایودھیا واقع بابری مسجد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ مسلم فریق بار بار اس ایکٹ کی دلیل عدالتوں میں دیتے رہے ہیں مگرکورٹ میں اسے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور ایودھیا کے فیصلہ کے بعد تو دیگر تاریخی مساجد کیخلاف مسلسل طومار باندھا جارہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK