• Sun, 14 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک گائوں جہاں سائرن بجتے ہی بچوں کا مطالعہ شروع ہوتا ہے اور ٹی وی بند ہوجاتےہیں

Updated: December 14, 2025, 11:43 AM IST | Sangli

سانگلی کے دھول گائوں میں ، بچوں کی پڑھائی کیلئے گائوں بھر میں یکساں وقت مقرر کیا گیا ہے، سائرن سن کر بچے پڑھائی شروع کرتے ہیں، اور سائرن سن کر بند کرتے ہیں۔

Providing a peaceful environment for children to grow up has become a challenge. Photo: INN
بچوں کو پرھائی کیلئے پر سکون ماحول فراہم کرنا چیلنج بن گیا ہے۔تصویر: آئی این این

سانگلی ضلع میں ایک گائوں ایسا ہے جہاں سائرن بجتے ہی بچے اپنے اپنے گھروں میں پڑھائی شروع کر دیتے ہیں اور گھر کے بڑے ٹی وی ، موبائل اور دیگر تفریحی آلات بند کر دیتے ہیں تاکہ یہ بچے سکون کے ساتھ پڑھائی کر سکیں۔  ایسا اتفاقاً نہیں ہوتا بلکہ گائوں والوں نے منظم طریقے سے یہ بچوں کیلئے یہ معمول تیار کیا ہے جو اس گائوں کے باشندوں کی اپنے بچوں کی تعلیم کے تئیں سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ 
اس وقت بچوں کو پڑھائی کیلئے پرسکون ماحول فراہم کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ شور شرابے اور بھاگ دوڑ والی زندگی میں ماں باپ کے پاس وقت بھی  نہیں ہے کہ وہ اس تعلق سے سنجیدگی سے غور کر سکیں لیکن سانگلی کے تعلقے کائوٹھے مہاکال میں واقع دھول گائوں میں مقامی باشندوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی پڑھائی میں خلل نہیں آنے دیں گے اور انہیں اس معاملے میں منضبط بنائیں گے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ بچوں کیلئے دن میں ۲؍ وقت مقرر کئے گئے۔ ایک صبح ۵؍ تا ۷؍ بجے، دوسرا شام ۷؍ تا  ۹؍  بجے۔  صبح ۵؍ بجتے ہی گائوں میں پہلا سائرن بجایا جاتا ہے جس کے بعد بچے اپنی کتابیں لے کر پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ گھر کے بڑے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گھر میں ٹی وی، ریڈیو، موبائل یا کوئی اور آواز کرنے والا آلہ نہ چل رہا ہو۔ جب  ۷؍ بجتے ہیں تو پھر سائرن بجایا جاتا ہے کہ اب پڑھائی کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اب بچے اسکول جائیں یا کھیل کود کریں ( اپنے اپنے وقت کے مطابق) 
شام کو ۷؍ بجے پھر اسی طرح سائرن بجتا ہے اور بچے پڑھائی کیلئے بیٹھ جاتے ہیں اور رات ۹؍ بجے سائرن بجنے کے بعد اپنی پڑھائی بند کر دیتے ہیں۔ گائوں والے اس سائرن کو ’مطالعہ کا سائرن‘ کہتے ہیں۔ اس میں جہاں بچوں کا انہماک نظر آتا ہے وہیں ان کے بڑوں کی تعلیم کے تعلق سے سنجیدگی اور قربانی بھی دکھائی دیتے ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ ۳؍ سال سے چل رہا ہے۔ جب کورونا کے سبب بچوں کی پڑھائی گھر سے شروع کی گئی تھی تو بچوںنے پڑھائی پر سے توجہ ہٹا دی تھی۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے دھول گائوں کے باشندوںکو خیال آیا کہ ان بچوں کو دوبارہ پڑھائی کے تعلق سے منظم کرنے کیلئے کوئی اقدام کرنا ہوگا۔ تب گائوں کے کچھ پڑھے لکھے لوگوں نے یہ تجویز پیش کی۔ تمام والدین نے اس پر ہامی بھری اور قرار داد منظور ہو گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نظام کیلئے صرف ماں باپ نے قربانی نہیں دی ہےبلکہ گائوں میں رہنے والے ٹیچرس نے بھی گھروں کو آپس میں بانٹ لیا ہے اور یہ سائرن بجتے ہی گائوںمیں نکل جاتے ہیں اور مقررہ گھروں میں جا کر دیکھتے ہیں کہ بچے پڑھ رہے ہیں یا نہیں؟ اور اگر پڑھ رہے ہیں تو انہیں کوئی دشواری تو پیش نہیں آ رہی ہے؟ اگر کوئی دشواری ہے تو یہ اساتذہ اسے دور کرتے ہیں۔ گائوں میں کچھ سابق فوجی اور سرکاری افسران بھی رہتے ہیں ۔ وہ بھی بچوں کے مطالعے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس نظام کی وجہ سے گائوں میں ایک ڈسپلن دکھائی دیتا ہے۔  ماں باپ کو بچوں کی پڑھائی کیلئے الگ سے تگ ودو کرنی نہیں پڑتی نہ ہی بچے جس طرح اپنے ماں باپ کو پڑھائی کیلئے منع کر دیتے ہیں ویسے منع کر پاتے ہیں۔ حال ہی میں سانگلی کے ضلع کلکٹر اشوک کاکڑے نے اس گائوں کا دورہ کیا اور گائوں والوںکے اس نظم وضبط کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ سانگلی کے ہر گائوں میں اس طرح کا نظم ہونا چاہئے تاکہ بچوں کو پڑھائی کیلئے  پرسکون ماحول حاصل ہو۔   

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK