۲۵؍ جون۲۰۲۵ءء کو عبد السمیع بوبیرے خود اپنے الفاظ میں’’اسی کی رسی تھامے‘‘ داعی ٔاجل کو لبیک کہہ گئے۔
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 11:37 PM IST | Mumbai
۲۵؍ جون۲۰۲۵ءء کو عبد السمیع بوبیرے خود اپنے الفاظ میں’’اسی کی رسی تھامے‘‘ داعی ٔاجل کو لبیک کہہ گئے۔
۲۵؍ جون۲۰۲۵ءء کو عبد السمیع بوبیرے خود اپنے الفاظ میں’’اسی کی رسی تھامے‘‘ داعی ٔاجل کو لبیک کہہ گئے۔۷؍ مئی ۱۹۷۰ء بروز جمعرات کی شام کے بھیونڈی کے خوفناک فساد کے نقوش ہنوز تازہ ہیں، ان دنوں ہماری رہائش سوداگر محلہ بھیونڈی ہی میں تھی اور دیوان محل، انجمن معین الاسلام میونسپل اردو پرائمری اسکول نمبر ۱۲؍، سابق ریاستی وزیر مصطفی فقیہ اور مرتضی فقیہ صاحبان کے وسیع مکانات ان تمام جگہوں پر کھاڑی پار، قاری ولی روڈ، کھارباؤ، عیدگاہ اور قرب و جوار کے سیکڑوں فساد متاثرین افراد پنا گزین تھے۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی ، گورنر علی یاور جنگ اور وزیر اعلی وی پی نائیک کی اس کیمپ میں فسادزدگان کے آنسو پونچھنے کی غرض سے آمد بھی ہو چکی تھی۔ ہر روز کسی نہ کسی سیاسی یا سماجی شخصیت کا آنا جانا تھا، ایسے ہی ایک موقع پر شہر بھیونڈی کے سابق صدر بلدیہ مرحوم شبیر احمد راہی کے ہمراہ اردو روزنامہ انقلاب کے بانی و مدیر عبدالحمید انصاری اور ماہنامہ جریدہ صبح امید کے ایڈیٹر عبدالحمید بوبیرے بھی تشریف لائے ، ان حضرات کے ساتھ ایک وفد کی شکل میں کھاڑی پار رسول آباد کو فساد کی زد میں آنے کے بعد دیکھنے کا پروگرام طے کیا گیا تھا، اس وفد میں بڑوں کے ساتھ محلے کے چند نوعمر بچے بھی شامل کارواں ہو گئے۔ انہی بچوں میں ناچیز بھی تھا۔ اس وفد کے ساتھ جانے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ’ صبح امید‘ کے ایڈیٹر عبدالحمید بوبیرے کے نام اور کام سے کچھ شدبد اور انسیت سی ہوگئی ، حسن اتفاق سوداگر محلہ میں واقع الجمعیت لائبریری میں دیگر رسالوں کے ساتھ عبدالحمید بوبیرے کا جریدہ ’ صبح امید بھی پڑھنے کا اتفاق ہوتا تھا، شدہ شدہ اس ماہنامے میں عبدالسمیع بوبیرے کے مضامین بھی نظروں سے گزرنے لگے بعد ازیں شامنامہ ممبئی اور روزنامہ انقلاب میں موصوف کا کالم درسگاہوں کی سیر بھی باصرہ نواز ہونے لگا، رفتہ رفتہ عبدالسمیع بوبیرے کے نام سے نہ صرف کان آشنا ہوئے بلکہ ممبئی میں ایم بی بی ایس کی تعلیم کے دوران مختلف ادبی مجالس میں شرف و نیاز کی سعادتیں بھی حاصل ہونے لگیں۔
مرحوم اپنے دور کے کامیاب صحافی ہونے کے ناطے اردو فارسی اور انگریزی تینوں زبانوں پر اچھی دسترس رکھتے تھے، ان میں نئے قلمکاروں کو آگے بڑھانے، انھیں حوصلہ دینے کا جذبہ بدرجہء اتم موجود تھا۔ غا لباً۸۳۔ ۱۹۸۲ء کے دوران ناچیز کو ممبئی یونیورسٹی یوتھ فیسٹیول کے تقریری مقابلوں میں دو گولڈ میڈل تفویض کئے جانے کی خبر جب عبدالسمیع بوبیرے صاحب کو ملی تو آپ نے خصوصی طور پر بلاسیس روڈ پر واقع اپنے دولت کدہ و دفتر ’صبح امید ‘ پر ناچیز کو مدعو کرکے اکرام کیا۔ پھر فوری طور پر ناچیز کی تصویر کے ساتھ دو دستی خطوط رقم فرمائے، ایک خط ایڈیٹر، دفتر انقلاب کے نام اور دوسرا خط مرحوم محمود ایوبی کے نام ( ہفت روزہ بلٹز ) کے نام بھیجا۔، چند دنوں بعد ممبئی کے تقریبا’ تمام معروف اخبارات میں `اردو سے رشتہ... ممبئی یونیورسٹی مقابلوں میں طلائی تمغے کے عنوان سے اس گمنام کی خبر مع تصویر شائع ہو چکی تھی، اسی طرح مرحوم بھائی ڈاکٹر ریحان انصاری کو بھی میدان صحافت میں منظر عام پر لانے میں مرحوم عبدالسمیع بوبیرے کا اہم کردار تھا۔
یاد آتا ہے ممبئی میں غالباً ۱۹۸۷ء میں حج ہاؤس کی شاندار عمارت کا افتتاح بدست گورنر یوپی محمد عثمان عارف عمل میں آیا تھا، ناچیز کو بھی اس فنکشن میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی تھی اور گورنر عارف محمد عثمان کی موجودگی میں چنندہ افراد نے خطاب کیا تھا۔ عبدالسمیع بوبیرے صاحب نے بھی چند منٹ کا خطاب فرمایا تھا جسکے نقوش آج بھی نگاہوں میں موجود ہیں۔یہ واقعہ ہے کہ شہر بھیونڈی میں اکثر و بیشتر علی ایم شمسی صاحب اور عبدالسمیع بوبیرے دونوں کی آمد عموماً ساتھ ساتھ ہوا کرتی تھی الحمدللہ دونوں حضرات بہترین مقرر ہونے کی وجہ سے جس مجلس میں بھی شریک ہوتے عوام و خواص کا دل جیت لیتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا کل ہی کی تو بات ہے کہ شہر بھیونڈی میں مرحوم ڈاکٹر ریحان انصاری کی پہلی کتاب ’ صحت نامہ‘ کے اجراءکے موقع پر ، رفیع انصاری صاحب کی معروف تصنیف رفع دفع کی تقریب اجراءپر ، مرحوم عبدالرحیم انصاری کی کاوشوں سے’ کفن سینٹر‘ کے افتتاح کے موقع پر اور حضرت دیوان شاہ گراؤنڈ بھیونڈی پر ہزاروں کے مجمع میں سابق ممبر آف پارلیمنٹ غلام محمود بنات والا کی صدارت میں مولانا محمد علی جوہر کے عنوان پر ناچیز کا ایک خطاب ہوا تھا۔ ہر بار مرحوم عبدالسمیع بوبیرے اور شمسی صاحب نے راقم کے خطاب اور شائع شدہ مضامین پر قابل تحسین کلمات ادا کرتے ہوئے حوصلہ افزائی بھی فرمائی ہے۔ یقینا’ دور حاضر میں اپنے سے چھوٹوں اور گمنام احباب کو آگے بڑھانا مرحوم کا ایک ایسا وصف تھا جسے لوگ ضرور یاد رکھیں گے اور ان کے حق میں دعاگو بھی ہوں گے۔
مکہ مکرمہ میں طبی خدمات کے دوران آپ کے عمرہ و حج کی غرض سے بیشتر اسفار بھی ہوئے۔ یاد آتا ہے تقریبا’ ہر مرتبہ آپ حرم شریف میں ناچیز سے ملاقات کیلئے ضرور تشریف لاتے اور گھنٹوں مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو بھی فرماتے تھے، گزشتہ چند ماہ سے فریکچر اور گردے کی ڈائیلاسیس کے سبب آپ زیادہ فعال نہیں تھے لیکن فون پر کچھ نہ کچھ گفت و شنید ہو ہی جایا کرتی تھی۔ابھی ۵؍ فروری ۲۰۲۵ء کو کینیڈا سے ناچیز نے استاذ گرامی مومن جان عالم رہبر کے متعلق مستقبل قریب میں آنے والی ایک تصنیف ’ آب رواں: مومن جان عالم رہبر ، تاثرات احباب و متعلقین ‘ کی نسبت عبدالسمیع بوبیرے صاحب سے ، تاثرات جاننے کیلئے رابطہ کیا تو آپ نے انتہائی بشاشت سے، رہبر صاحب سے اپنے دیرینہ روابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے فوری طور پر ٹیلیفون ہی پر اپنے تاثرات لکھوا دئیے۔ ایسے تھے بوبیرے صاحب۔احقر کو ٹیلی فون پر لکھوائی گئی مرحوم کی آخری تحریر اور گفتگو ناچیز کے پاس بطور ایک امانت ہے جو مذکورہ کتاب میں شائع ہونے جارہی ہے۔ اللہ پاک عبدالسمیع بوبیرے پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے۔ ( آمین )
(مضمون نگار سابق فزیشن، حرم مکی شریف ہیں، اب انٹاریو ، کینیڈا میں مقیم ہیں)