Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ پولیس کی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں‘‘

Updated: July 26, 2025, 8:30 AM IST | Nadeem Asran | Mumbai

ٹرین بم دھماکوں کے الزام سے بری ہونے والے ڈاکٹر تنویر نے کہا’میرا کام لوگوں کی جان بچانا ہے مارنا نہیں،جیل میں بھی قیدیوں کے علاج میں مدد کی

Dr. Tanveer Ansari
ڈاکٹر تنویر انصاری

سلسلہ وار ٹرین بم دھماکوں کے الزام سے بری ہونے کے بعد جب امراوتی جیل سے۱۹؍ سال بعد کالا پانی میں واقع رہائش گاہ پر ڈاکٹر تنویر انصاری اپنے بھائی مقصود انصاری کے ہمراہ گھر پہنچے تو اہل خانہ اور رشتہ داروں کا تانتا بندھ گیا ۔ اس ملاقات کے دوران اس وقت آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا جب اپنی گرفتاری کے ۶؍ ماہ بعد پیدا ہونے والی اپنی ۱۸؍ سالہ بچی کو گلے لگایا۔  نامہ نگاراس جذباتی منظر کومحسوس تو کرسکا لیکن شاید اس درد کو کوئی نہ سمجھ سکے جو ۱۹؍ سال تک ایک باپ اپنی بیٹی ، ایک بیٹا اپنے والدین اور شوہر اپنی بیوی سے ایسے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیتیں برداشت کرتا رہا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔
  جمعیۃ علماء مہاراشٹر ممبئی کے دفتر میں انقلاب نے گرفتاری سے لے کر رہائی تک کی روداد جاننے کے کوشش کی تو بات چیت کے دوان ڈاکٹر تنویر کی آنکھیں کئی بار آنسوؤں سےچھلک اٹھی۔ ڈاکٹر تنویر ایک سوال کے جواب میں یوں گویا ہوئے کہ ’’ مہاراشٹر انسداد دہشت گردی دستہ( اے ٹی ایس) اس وقت جبراً تقریباً گھسیٹتے ہوئےمجھے اپنے ساتھ لے گئی جب میں صابو صدیق اسپتال میں ڈیوٹی پر موجود تھا ۔میں چیختا رہا ، چلاتا رہا ، اسپتال کا عملہ اور اس کے سربراہ اس وقت بھی اورعدالت کے روبرو میرے حق میں گواہی دی تھی لیکن اے ٹی ایس نے جھوٹے الزام میں پھنسا کر میری زندگی کے ۱۹؍ قیمتی سال نہ صرف تباہ و برباد کردیئےبلکہ میری بیٹی کو اس باپ کی شفقت سے ، ایک بیوی کو اس کے حقوق سے اور والدین کی خدمت و محبت سے محروم کر دیا ۔ جس وقت ڈاکٹر بیٹے کو بیمار والدہ کی ضرورت کے وقت اس کے پاس ہونا تھا ، اس کی تیمار داری اور علاج کرنا تھا ، افسوس کہ میں اُس وقت ایجنسی اور موجودہ سسٹم کی زیادتیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔‘‘
 ڈاکٹر تنویرنےمزید کہا کہ ’’ بطور ڈاکٹر میرا کام لوگوں کی جان بچانا ہے نہ کہ مارنا ۔ میں دہشت گرد نہیں ہوں لیکن اے ٹی ایس کی دہشت گردی اور ظلم و زیادتی کا شکار ہوا ہوں اور میں ہی نہیں دہ سیکڑوں دھماکہ متاثرین بھی مذکورہ ایجنسی کی جھوٹی تفتیش کے سبب انصاف سے محروم ہیں۔میںبے گناہی کے باوجود قید و بند کے دوران تھرڈ ڈگری ٹارچر اور برین میپنگ ، نارکوٹکس کی اذیتوں جھیلتا رہا ،حتیٰ کہ اے ٹی ایس نے وعدہ معاف گواہ بنانے کے لئے ۲۵؍ لاکھ روپے اور ایک فلیٹ دینے کا بھی لالچ دیا لیکن خد ا کا شکر ہے کہ نہ تو میرا ایمان کمزور پڑا اور نہ میں نے انسانیت کو مرنے دیا ۔ میں گرفتاری سے قبل بھی انسانیت کے تقاضوں کو ہمیشہ پورا کرتا رہا ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ’’ ۲۰۲۱ء میں بھج میں آنے والے زلزلہ متاثرین کی طبی مدد فراہم کرنے والی ٹیم کا حصہ رہا ہو ں ۔ یہی نہیں میں  جیل میں باقاعدگی سے بیمار قیدیوںکو فوری طبی مدد فراہم کرنے کیلئے ہمیشہ حاضر رہا اور جیل کے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر بیمار قیدیوں کو بہتر سے بہتر علاج فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور دوائیں تجویز کرتا رہا ہوں۔‘‘
  ڈاکٹر تنویر بھی اپنے ان دیگر ساتھی قیدیوں میں سے ایک ہیں جنہوںنے نہ تو رہائی کی امید کو معدوم ہونے دیا نہ انڈا سیل کی تارکیوں میں اپنے ذہن اور روح کو فوت ہونے دیا بلکہ قید و بند کے دوران اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتے رہے۔ ڈاکٹر تنویر کے بقول ’’ میںنے قید و بند کے دوران ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں ایک سرٹیفکیٹ کورس مکمل کیا، بی اے اور ایم اے (سیاست) میں ڈگری بھی حاصل کی ہےاور چونکہ میں ایک سچا ہندوستانی ہوں اور انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں  اس لئےمیں ڈیزاسٹر محکمہ میں ہی ملازمت کرنے کا خواہشمند ہوں اورچاہتا ہوں کہ جس ایجنسی کے افسران نے مجھے جھوٹے کیس میں پھنسایا تھا  وہ اس محکمہ میں ملازمت دلانے میںمیری مدد کریں ۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK