• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افغانستان کے وزیرخارجہ کا دارالعلوم دیوبند میں شاندار استقبال

Updated: October 12, 2025, 10:50 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

پولیس کا سخت پہرہ، طلبہ، اساتذہ اور عوام کا جم غفیر۔ سیکوریٹی کی بناء پر خطاب سے معذرت کرلی ، دارالعلوم کے مہتمم نے انہیں حدیث کی سند تفویض کی۔

Maulana Arshad Madani warmly welcoming Afghan Foreign Minister Amir Khan Muttaqi. Photo: INN
مولانا ارشد مدنی، افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا نہایت گرمجوشی سے استقبال کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

افغانستان کے وزیرخارجہ مولوی امیر خان متقی کا دارالعلوم دیوبند میں سنیچر کوسرکاری دورہ پر شاندار استقبال کیا گیا۔ اس دوران پولیس کا سخت پہرہ تھا۔ طلبہ، اساتذہ اور عوام کا جم غفیردیوبند پہنچ گیا تھا۔ سیکوریٹی وجوہات کے سبب شیخ الہند لائبریری کی بالائی منزل پر واقع وسیع وعریض ہال میں عمومی خطاب کے لئے ضلع انتظامیہ نے معذرت کرلی لیکن طالبان کے وزیر خارجہ کو دیکھنے اور سننے کے لئے وہاں بڑی تعداد پہنچ گئی تھی۔ اس دوران دارالعلوم کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے دارالحدیث میں افغانی وزیرخارجہ کو حدیث کی سند تفویض  کی۔ اس موقع پردارالعلوم کے گیٹ پربڑا بینر نمایاں کیا گیا تھا جبکہ دارالعلوم کے طلبہ اپنے ہاتھوں میں خوش آمدیدکے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے۔ 
اس سے قبل افغانستان کے وزیرخارجہ اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق سنیچر کی دوپہر۱۲؍بجے دارالعلوم پہنچے، ظہر کی نماز مہمان خانے میں ادا کی اورساڑھے تین بجے دہلی کے لئے روانہ ہوئے۔ اس دوران مجمع کی کثرت کے سبب نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ دارالعلو م آنے والے راستے کو کچھ وقت کےلئے بند کرنا پڑا۔ ضلع انتظامیہ کی جانب سے گارڈآف آنر کی بھی تیاری کی گئی تھی لیکن مجمع کی کثرت اورحالات کی نزاکت کے پیش نظر انتظامیہ نے اسے بھی ٹال دیا۔ 
مولوی امیر خان متقی نے مہمان خانے میں مختصر خطاب میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، شیخ احمد سرہندی، شیخ ولی اللہ محدث دہلوی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا حسین احمدمدنی وغیرہ اکابر علماء ومحدثین کاتذکرہ کرتے ہوئےکہا کہ ’’ افغانستان اور ہندوستان کے تعلقات اورعلمی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ان بزرگوں نے تنگ دستی اور عسرت کے باوجود پورے خطے میں علم دین کی لازوال خدمت کی۔   امیر خان متقی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ دارالعلوم اور ہمارے اسلاف کاسب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے علوم ِنبویہؐ کے تحفظ کواپنا مشن بنایا اور اس طرح افراط وتفریط سے امت کو بچاتے ہوئے اپنی علمی ا ورروحانی خدمات کے ذریعے دنیا کومنور کیا۔ انہوں نےیہ بھی کہاکہ ’’ دارالعلوم ایک علمی اور روحانی مرکز ہے۔ مجھے یہاں آکرطلبہ، اساتذہ اورعوام الناس کو دیکھ کراس قدر خوشی ہوئی کہ میں اسے بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ ‘‘اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اورجمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی اورمفتی ابوالقاسم نعمانی نے بھی مختصر اظہارخیال کیا۔ افغانی وزیرخارجہ سے جب ان کے دارالعلوم دیوبند دورے کےتعلق سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ اس دورے کے ذریعے دیرینہ تعلقات کو تازہ کرنے جارہے ہیں۔ جس مسلک کی ترجمانی دارالعلوم کرتا ہے، ہم بھی اسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ‘‘۲۵؍فروری ۱۹۵۸ء میں افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ بھی دارالعلوم کا دورہ کرچکے ہیں اوران کے نام سے ایک گیٹ بھی منسوب ہے، اس جانب ان کا اشارہ تھا۔ میڈیا کے نمائندوں کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے دوٹوک اندازمیں یہ بھی کہاکہ ’’ افغانستان کے تعلق سے جو الزامات عائد کئےجاتے رہے، ۴ ؍برس گزرگئے مگراس کےثبوت نہیں پیش کئے جاسکے، ہماری حکومت بہت مستحکم ہے۔ ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم اس کےقائل ہیں کہ افغانستان سے کسی کو خطرہ ہے۔ دراصل یہ سوال ان سے پوچھا جانا چاہئے جواس طرح کا الزام عائد کرتے ہیں۔ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ تاریخ گواہ ہےکہ اس نےکبھی کسی غیرملکی فوج یا اس کاتسلط قبول نہیں کیا ہے اور نہ ہی اب وہ اس کےلئے کسی صورت تیار ہےاور نہ ہی کوئی افغانستان کی سرزمین استعمال کرسکتا ہے۔ اگر کوئی تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے تواس کیلئے ڈپلومیسی اوراقتصادی معاملات کے ذریعے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK