ٹرین بم دھماکوں کے الزام سے بری ہونے والے مزمل شیخ ، ساجد مرغوب ،سہیل شیخ اور ضمیر شیخ اپنے اور اہل خانہ پر ظلم و ستم کی روداد بیان کرتے ہوئے کئی بار آبدیدہ ہوگئے
EPAPER
Updated: July 25, 2025, 10:02 AM IST | Nadeem Asran | Mumbai
ٹرین بم دھماکوں کے الزام سے بری ہونے والے مزمل شیخ ، ساجد مرغوب ،سہیل شیخ اور ضمیر شیخ اپنے اور اہل خانہ پر ظلم و ستم کی روداد بیان کرتے ہوئے کئی بار آبدیدہ ہوگئے
۲۰۰۶ء کے ٹرین بم دھماکوں میں ماخوذ کئے گئے مزمل شیخ ، ساجد مرغوب ، سہیل شیخ اور ضمیر شیخ نے بامبے ہائی کورٹ کے ذریعہ تمام الزامات سے بری کئے جانے اور تقریباً دو ہائی بعد نصیب ہونے والی رہائی پر خدا کا شکر ادا کیاساتھ ہی خصوصی طورپر جمعیۃ علماء مہاراشٹر لیگل سیل کے سیکریٹری مرحوم گلزار اعظمی اور وکیل مرحوم شاہد اعظمی کی قربانیوں ،جمعیۃ علمائے ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی اور مہاراشٹر کے صدر مولانا حلیم اللہ قاسمی کی مسلسل کوششوں اور کاوشوں کا بھی اعتراف کیا ۔
انقلاب سے بات چیت کے دوران جیل کی صعوبتوں ، تفتیشی ایجنسی کے ٹارچر، اپنے بھائی، بیوی اور والدین کی موت پر ان کا آخری دیدار تک نہ کرپانے کی رودادبیان کرتے ہوئے کئی بار ان کا درد چھلک اٹھا اور آنکھیں نم ہوگئیں۔ ان چاروں نےیک زبان ہو کر کہا کہ اے ٹی ایس کے دیئے گئے زخموںکو اتنی آسانی سے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ جھوٹے الزامات میں ہماری گرفتاری جتنا کڑوا سچ تھا ، ۱۹؍ سال بعد ملنے والی رہائی پر ہم یہی کہیں گے کہ جھوٹ پر سچ کی فتح ہوئی ہے ۔
ساجد مرغوب
’’ ۱۹؍ سال بعد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے لئے راحت کا باعث ضرور ہے اور ان شا اللہ سپریم کورٹ میں بھی سچ کی جیت ہوگی ۔رہی بات ہماری گرفتاری ، ہم پر اور ہمارے اہل خانہ پر ہونے والے ظلم و ستم کی تو تفتیشی ایجنسی نے وہ ظلم صرف ہم پر نہیں کیا ہے بلکہ دھماکوں میں ایک سو ۸۰؍ سے زائد ہلاک ہونے اور ۸؍ سو سے زائد زخمی ہونے والوں کے ساتھ بھی کیا ہے۔تفتیشی ایجنسی نے اپنی ناکامی کو چھپا نے اور اصل مجرموںکو گرفتار کرنے میں ناکامی کی صورت میں ہمیں بلی کا بکرا بنایا تھا ۔ ایجنسی نے جسمانی تشدد کرنے کے علاوہ ایسی ذہنی اذیتیں دی ہیں جسے فراموش نہیں کیاجاسکتا ہے ۔ میری گرفتاری کے ۶؍ ماہ بعد میری بیٹی پیدا ہوئی تھی لیکن میں نہ تو اسے گود میں لے کر پیار کرسکااور نہ گلے لگا کر اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر سکا ۔ یہی نہیں میری والدہ اور بہنوں کی موت پر بھی نہ تو ان کا آخری دیدار نصیب ہوا اورنہ ہی ان کی قبر پر جانے کا موقع دیا گیا ۔‘‘
مزمل شیخ
’’ میں کس کس چیز پر بات کروں ۔دہشت گردی کے سنگین الزامات کو بیان کروں ، اندھیری کال کوٹھری اور پولیس کے ظلم و ستم اور تشدد کی کا رونا روؤں یا اپنے خاندان کا شیرازہ بکھر جانے اور والدین کا آخری دیدار تک نصیب نہ ہونے پر ماتم کروں ۔ میں اگر ۱۹؍سالہ جھوٹ پرمبنی الزامات اورمسلسل دی جانے والی اذیتوں کا ذکر کروں گا تو اس پر کئی جلدیں تحریر کی جاسکتی ہیں ۔ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے نہ صرف ہمارے ۱۹؍ سال برباد کر دیئےبلکہ میرے والدین کو مجھ سے چھین لیا ۔ میرے والد آخری وقت میں میرا نام لیتے لیتے اس دنیان سے چل بسے لیکن اسے میری بدنصیبی کہئے یا سسٹم کی سفاکی جس نے نہ تو مجھے میرے والد کا آخری دیدار کرنے دیا اور ان کی قبر پر جاکر گر کر اور رو کر اس بات کی معافی مانگنے کی بھی اجازت نہیں دی کہ جس عمر میں انہیں آرام کرنا چاہئے تھا ، وہ ہماری رہائی کیلئے کورٹ کچہری اور پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹتے اور ان کی سفاکی کا شکار ہوتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اسی طرح میری والدہ بھی ۲۰۲۴ء میں پولیس کی زیادتی کا شکار ہو کر اس دنیا سے چل بسی ۔‘‘
سہیل شیخ
’’ جھوٹے الزامات میں گرفتاری اور ۱۹؍ سال بعد رہائی کا مطلب تاخیر سے ہی سہی جھوٹ پر سچ کی فتح ہے ۔ہم پہلے دن سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے نہ صرف زبانی بلکہ دستاویزی ثبوت بھی پیش کرتے رہے لیکن افسوس یہ ہے کہ مکوکا کی خصوصی عدالت نے اس پر توجہ نہیں دی ۔ وہیں بامبے ہائی کورٹ نے نہ صرف یہ کہ پولیس کے جھوٹے ثبوت، شواہد اور گواہوں کی بخیے ادھیڑ دیئے بلکہ بندوق کی نوک پر اور تشدد کرکے لئے گئے اقبالیہ بیان کو بھی ماننے سے انکار کر دیا ۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں جو پولیس کی ساری خامیوں اور جھوٹ کو اجاگر کیا ہے، وہ ہم چیخ چیخ کر کہتے رہے لیکن ہماری آواز کو دبادیا گیا تھا۔ خیر’ انت بھلا تو سب بھلا‘ ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ میں بھی سچ کی ہی جیت ہوگی۔‘‘
ضمیر شیخ
’’ بنا قصور کے ۱۹؍ سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے ، تفتیشی ایجنسی کے ساتھ ساتھ جیل افسران و اہلکارںکی ذہنی اور جسمانی زیادتیوں کو برداشت کرنے کے بعدخدا کا شکر ہے ہمیں جیل سے رہائی مل گئی لیکن اب بھی وہ میرے ذہن میں ایک ڈراؤنے خواب کی طرح گھوم رہا ہے ۔حیرت اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ پولیس نے مجھ پر ریکی کرنے اور سازش میں شامل کرنے کا الزام لگایاتھا لیکن خود پولیس نےہماری ریکی کرکے جو سازش تیار کی اس گناہ کی سزا ہم ۱۹؍ سال تک جھیلتے رہے ۔‘‘