گنے کی خریداری کے وقت فی ٹن ۱۵؍ روپے کاٹ لئے جائیں گے، ۵؍ روپے کسانوں کے اکائونٹ میں اور ۱۰؍ روپے وزیراعلیٰ ریلیف فنڈ میں جائیں گے ، کسانوں میں ناراضگی۔
EPAPER
Updated: October 03, 2025, 11:36 AM IST | Inquilab News Network | Pune
گنے کی خریداری کے وقت فی ٹن ۱۵؍ روپے کاٹ لئے جائیں گے، ۵؍ روپے کسانوں کے اکائونٹ میں اور ۱۰؍ روپے وزیراعلیٰ ریلیف فنڈ میں جائیں گے ، کسانوں میں ناراضگی۔
مہاراشٹر میں حالیہ سیلاب کے سبب کسانوں کی بری حالت ہے۔ ایسی صورت میں فرنویس حکومت کسانوں کی مدد کرنے کے نام کسانوں ہی کی جیب پر ہاتھ صاف کررہی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال گنے کی فصل کی خریداری کے وقت کسانوں سے فی ٹن ۱۵؍ روپے وصول کئے جائیں گے جو کہ سیلاب زدگان کی مدد کیلئے خرچ کئے جائیں گے۔ اس میں بھی ۵؍ روپے تو کسانوں کے اکائونٹ میں براہ راست جمع ہوں گے باقی ۱۰؍ روپے وزیر اعلیٰ ریلیف فنڈ میں جمع کروائے جائیں گے۔ حکومت کے اس فیصلے سے کسانوں میں ناراضگی ہے۔ کسان لیڈروں نے اس پر تنقید کی ہے۔
یاد رہے کہ ستمبر کے مہینے میں مہاراشٹر کے مختلف اضلاع میں ہوئی زور دار بارش کے سبب تقریباً ۶۰؍ لاکھ ہیکٹر زمین پر فصلوں کا نقصان ہوا ہے۔ حکومت نے ان کی مدد کا اعلان کیا ہے فنڈ بھی مختص کیا ہے لیکن اب تک یہ نہیں بتایا ہے کہ کس تاریخ کو کسانوں کے اکائونٹ میں پیسے ڈالے جائیں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت الگ الگ ذرائع سے پیسے جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہر سال سردی کے موسم میں ریاست کے کسانوں سے گنا خریدا جاتا ہے۔ کسان یہ گنا شکر کارخانوں کو دیتے ہیں ۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یکم نومبر سے کسانوں سے گنا خریدا جائے لیکن گنے کے دام میں سے فی ٹن ۱۵؍ روپے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے کاٹے جائیں گے۔ اس میں سے ۵؍ روپے تو براہ راست سیلاب زدگان کے اکائونٹ میں جمع ہوں گے جبکہ ۱۰؍ روپے وزیر اعلیٰ ریلیف فنڈ میںجائیں گے۔ یاد رہے کہ ہر سال لاکھوں ٹن گنے کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ اس لئے کسانوں سے وصول کئے جانے والے ۱۵؍ روپے مجموعی طور پر کروڑوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ لہٰذا حکومت کو اس پر تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کسان لیڈر روی کانت توپکر کا کہنا ہے کہ ’’حالیہ سیلاب کی وجہ سے گنا کسان بھی مشکل میں ہیں۔ ایسی صورت میں اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان کو چاہئے کہ وہ خود اپنی تنخواہیں نہ لیں اور گنا کسانوں کی مدد کریں۔ حکومت دیگر پروجیکٹوں کو دی جانے والی رقم روک دے اور پہلے کسانوں کو ہونے والے نقصانات کی صد فیصد بھرپائی کرے۔ ‘‘ عثمان آباد کے کرمالہ تعلقے میں گنا اگانے والے کسان سنجے سالونکھے کہتے ہیں کہ ’’ دیوی کی آگ ہی سے دیوی کا چرغ جلانے والی کہاوت دیہی علاقوں میں بہت مشہور ہے۔ یہ کہاوت حکومت کے فیصلے پر صادق آتی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا ’’ کسانوں کی رضامندی معلوم کئے بغیر ہی وصولی شروع کر دی گئی ہے۔ کسانوں کے ساتھ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے مگر یہ نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
’’ پیسے کسانوں سے نہیں کارخانوں سے لئے جائیں گے‘‘
کسانوں کی ناراضگی کے بعد ریاستی وزیر برائے سیاحت شمبھو راج دیسائی نے تاویل پیش کی ہے کہ گنے کی فصل پر ۱۵؍ روپے فی ٹن کسانوں سے نہیں بلکہ کارخانہ داروں سے لئے جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایسا پچھلی حکومتوں میں بھی ہوتا رہا ہے۔ ستارا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شمبھو راج دیسائی نے کہا کہ ’’ کو آپریٹیو شکر کارخانوں کی شروع سے یہ روایت رہی ہے کہ وہ گنے کی خریداری کا آغاز ہونے سے قبل آپس میں میٹنگ وغیرہ کرتے ہیں۔ اگر ریاست میں سیلاب، قحط یا کوئی اور قدرتی آفت آتی ہے تو یہ کارخانہ دار فی ٹن رقم امداد کے طور پر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کسانوں سے پیسے لئے گئے۔ شکر کارخانوں کو اپنی آمدنی میں سے یہ رقم دینی ہوتی ہے۔ ا نہوں نے کہا ’’ تقریباً ۶۰؍ ہیکٹر زمین پر فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ ان کی امداد کرنی ہی ہوگی۔ شکر کارخانوں کی طر ف سے بھی تھوڑی مدد ہو جائے ۔ بس یہی اس فیصلے کا مقصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب شرد پوار وزیر اعلیٰ تھے اور لاتور کے کلاری علاقے میں زلزلہ آیا تھا، اس وقت بھی گنا کسانوں سے فی ٹن ۲؍ روپے وصول کئے گئے تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ریاست کے اساتذہ نے اپنی ایک دن کی تنخواہ سیلاب زدگان کی امداد کیلئے حکومت کو دینے کا اعلان کیا تھا اس پر حکومت کو تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ اساتذہ کی تنظیموں نے خود خط لکھ کر وزیر تعلیم کو پیش کش کی تھی کہ وہ اپنی ایک دن کی تنخواہ وزیر اعلیٰ ریلیف فنڈ میں دینا چاہتے ہیں۔ البتہ کسانوں یا کارخانہ داروں کی طرف سے ایسے کسی خط کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔