Inquilab Logo

استنبول میں آیا صوفیہ کے بعد اب تقسیم اسکوائر مسجد کا افتتاح

Updated: May 30, 2021, 9:21 AM IST | istanbul

طیب اردگان نے عوام کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کی اور خطاب میں کہا ’’ مسجد کی تعمیر اس کی مخالفت کرنے والوں پر فتح ہے اور اب یہ ابد تک قائم رہے گی‘‘

Recep Tayyip Erdogan addressing the opening ceremony (Photo: Agency)
رجب طیب اردگان افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے ( تصویر: ایجنسی)

 محض ایک سال کے اندر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے استنبول میں دوسری مسجد کا افتتاح کیا ہے۔  اس بار شہر  کے مشہور تقسیم اسکوائر  علاقے میں ایک  مسجد میں نماز شروع کی گئی ہے جسے متنازع کہا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ ۲۰۱۳ء میں جب اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ تیار ہوا تھا تو ترکی میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا ، وجہ یہ ہے کہ تقسیم اسکوائر کو ترکی میں ’سیکولر ازم کی علامت‘ سمجھا جاتا ہے اور یہاں کسی مذہبی علامت یا عمارت کا تعمیر کرنا ممنوع ہے۔ 
    جمعہ کے روز مسجد کے افتتاح کے موقع پر خود طیب اردگان  وہاں پہنچے۔ انہوں نے خود نماز میں شرکت کی۔ اس تاریخی موقع پر  ہزاروں افراد نےجمعہ کی نماز ادا کی۔ بھیڑ کا عالم یہ تھا کہ بہت سے لوگ مسجد میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے چوک پر نماز پڑھتے نظر آئے۔ واضح رہے کہ یہ مسجد ’تقسیم اسکوائر‘ میں اس ‘ عوامی مقام‘  کے سامنے نمایاں طور پر نظر آتی ہے  جہاں عام طور پر ترک عوام احتجاج یا مظاہروں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔  اسی‘ عوامی مقام‘ کو روایتی طور پر سیکولر ترک جمہوریہ کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کی مخالفت کرنے والوںکا کہنا ہے کہ مسجد کا یہاں تعمیر ہونا جمہوریہ کی یادگار اور اس کے بانی مصطفی کمال اتاترک کو بھی بونا کر دیتا ہے۔
 صدر اردگان  نے جمعہ کی نماز کے بعد عوام سے خطاب بھی کیا۔ انہوں نے کہا’’ `تقسیم مسجد‘   استنبول کی علامتوں میں اب ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ انشاء اللہ یہ ابدالآباد تک قائم رہے گی۔‘‘انھوں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ’’ مسجد کی تعمیر اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر فتح ہے جو تقسیم چوک پر کسی بھی طرح کی مذہبی علامت پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔ ‘‘اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ’’ `اب اس پیش قدمی کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ اردگان نے بتایا کہ تقسیم چوک پر انھیں مسجد کی ضرورت کا خیال پہلی دفعہ اس وقت آیا تھا جب  ۱۹۹۰ءکی دہائی میں وہ استنبول کے میئر تھے۔
  اردگان نے جمعہ کے مجمع سے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ `یہاں پر نماز پڑھنے کیلئے  ایک کمرہ بھی نہیں تھا اور لوگوں کو زمین پر اخبارات بچھا کر نماز ادا کرنی پڑتی تھی۔اس جگہ پر موجود نمازیوں نے اس نئی مسجد کی تعریف کی جس میں مخصوص عثمانی طرز تعمیر اور عصری ڈیزائن کے امتزاج کو بخوبی استعمال کیا گیا ہے۔ اس مسجد میں بیک وقت تقریبا چار ہزار افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔
  جمعہ کی نماز پڑھنے آئے ابوذر کوچ نےبتایا کہ’’ یہاں `بہت سارے لوگ ہیں اور مساجد کافی نہیں ہیں۔انھوں نے مزید کہا `خدا ان لوگوں پر رحمت نازل کرے جنھوں نے اس کی تعمیر کروائی۔‘‘اگرچہ ترکی ایک مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن ناقدین صدر اردگان پر الزام لگاتے رہتےہیں کہ وہ ترکی کی سیکولر بنیاد کو ختم کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سے پہلے آیا صوفیہ کو میوزیم سے دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے پر بھی ان پر تنقید ہوئی تھی۔
  تقسیم اسکوائر کی تاریخ
  ۱۹۲۳ء میں جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور ترکی میں نام نہاد سیکولر حکومت قائم ہوئی تو کئی نئی تعمیرات بھی ہوئیں۔ انہی میں استنبول کا ’تقسیم اسکوائر ‘ بھی ہے جہاں چار الگ الگ  تاریخی عمارتوں کے درمیان بڑی سی جگہ ہے  جو عام طور پر عوام کے احتجاج اور مظاہروں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ چاروں طرف موجود عمارتوں میں ایک غازی پارک بھی ہے جس جگہ یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ ۱۹۵۲ء ہی میں اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ تیار کر لیا گیا تھا لیکن حکومت میں تبدیلیوں اور بعض حلقوںکی جانب سے مخالفتوںکے سبب اس کی تعمیر نہیں ہو سکی۔ ۱۹۸۰ء کے بعد اسے تعمیر کرنے کی کئی بار کوشش ہوئی لیکن عدالت نے اس پر یہ کہہ کر روک لگادی کہ مسجد کوئی ’عوامی فلاح‘ کی چیز نہیں ہے اس لئے اس کی تعمیر غیر ضروری ہے۔ لیکن ۱۹۹۴ء میں جب طیب اردگان استنبول کے میئر تھے تو انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کیلئے مہم چھیڑی اور جب انہوں نے ۲۰۱۳ء میں صدارتی الیکشن لڑا تو تقسیم اسکوائر مسجد کی تعمیر کو اپنے  مینی فیسٹو میں شامل کیا۔  اقتدار میں آنے کے بعد انہوں مسجدکی تعمیر کا اعلان کیا لیکن اس کے خلاف احتجاج ہونے لگا۔ اس کے باوجود ۲۰۱۷ء میں مسجد کا کام شروع ہوا اور اب یعنی ۲۸؍ مئی ۲۰۲۱ء کو یہاں نماز شروع ہو گئی۔

turkey Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK