سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کی حساسیت اور متاثرین کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کو اپیلوں پر صرف تکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ انصاف کے وسیع تر مفاد میں غور کرنا چاہئے
EPAPER
Updated: December 21, 2025, 10:30 AM IST | New Delhi
سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کی حساسیت اور متاثرین کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کو اپیلوں پر صرف تکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ انصاف کے وسیع تر مفاد میں غور کرنا چاہئے
سپریم کورٹ نے ۲۰۰۷ء کے اجمیر شریف درگاہ دھماکہ کیس میں ایک اہم حکم میں راجستھان ہائی کورٹ سے کہا ہےکہ وہ متاثرین کی اپیلوں کی انہیں تاخیرسے دائر کئے جانےکو نظر انداز کرتے ہوئے ، استحقاق یعنی میرٹ کی بنیاد پرسماعت کرے ۔ واضح رہے کہ ان اپیلوں میںبم دھماکہ کے کچھ ملزموں کو بری کرنے کو چیلنج کیاگیا ہے ۔ جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس ستیش چندر شرما نے یہ عبوری حکم اجمیر درگاہ کے خادم اور اس معاملے میں شکایت کنندہ سید سرور چشتی کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جاری کیا ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ راجستھان ہائی کورٹ اپیل پر نئے سرے سے سماعت کرکے فیصلہ کرے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ کیس کی حساسیت اور متاثرین کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کو اپیلوں پر صرف تکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ انصاف کے وسیع تر مفاد میں غور کرنا چاہئے۔
واضح رہے کہ یہ مقدمہ۱۱؍ ا کتوبر۲۰۰۷ء کو رمضان المبارک کے دوران افطار کے فوراً بعد اجمیر درگاہ کے احاطے میں ہونے والے ایک بم دھماکے سے متعلق ہے جس میں ۳؍ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے ۔ تحقیقات کے بعد کیس کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)کے حوالے کر دیا گیا تھا۔۲۰۱۷ء میں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے بھویش پٹیل اور دیویندر گپتا کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم دیگر ملزمین لوکیش شرما، چندر شیکھر لیوے، مکیش واسانی، ہرشد عرف منا، نابا کمار سرکار عرف سوامی اسیمانند، مافت عرف میہول اور بھارت موہن لال رتیشور کو بری کر دیا گیا تھا۔ شکایت کنندہ سید سرور چشتی نے راجستھان ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی ہیں جس میں بری ہونے کے ساتھ ساتھ دو مجرموں کو سنائی گئی سزا کی مدت کو چیلنج کیا گیا ہے۔
راجستھان ہائی کورٹ نے ۲۰۲۲ء میں ان اپیلوں کو خارج کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ اپیلیں دائر کرنے میں۹۰؍د ن سے زیادہ تاخیر ہوئی ہے اور قومی تحقیقاتی ایجنسی ایکٹ۲۰۰۸ء کے سیکشن۲۱(۵) کے تحت اس تاخیر کو معاف نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ یہ مقدمہ تقریباً پانچ سال سے زیر التوا تھا۔ اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سید سرور چشتی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ ان کی طرف سے دلیل دی گئی کہ این آئی اے ایکٹ کے تحت تاخیر کی عدم معافی کی سخت تشریح آئین کے آرٹیکل۱۴؍ اور۲۱؍کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح کی تشریح سے اپیل کے بنیادی حق، انصاف تک رسائی اور دہشت گردی کے سنگین مقدمات میں متاثرین کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس عرضی پر۳؍ نومبر ۲۰۲۵ء کو راجستھان حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ اس کے بعد۱۸؍ دسمبر کو منظور کیے گئے ایک نئے عبوری حکم میں، سپریم کورٹ نے واضح طور پر راجستھان ہائی کورٹ کو اپیلوں پر سماعت کا حکم دیاتھا ۔