۲۰۱۳ءمیں ایلس منرو کو ادب کا نوبل انعام اور۲۰۰۹ء میں اپنی ادبی خدمات کیلئے بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا، منرو حالیہ برسوں میں ڈیمنشیا کا شکار تھیں۔
EPAPER
Updated: May 16, 2024, 10:31 AM IST | New York
۲۰۱۳ءمیں ایلس منرو کو ادب کا نوبل انعام اور۲۰۰۹ء میں اپنی ادبی خدمات کیلئے بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا، منرو حالیہ برسوں میں ڈیمنشیا کا شکار تھیں۔
ادب میں نوبیل انعام حاصل کرنے والی کنیڈا کی پہلی مصنفہ ایلس منرو کا ۱۳؍ مئی ۲۰۲۴ء کواونٹاریو میں ان کے گھر پر انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۹۲؍ سال تھی۔ وہ طویل عرصے سے ڈیمنشیا کا شکار تھیں۔ ان کی مختصر کہانیوں کے مجموعے ہمیشہ اپنی صداقت اور بے باکی کیلئے جانے جائیں گے ۔ منرو نے اونٹاریو کے دیہی علاقوں میں اپنے مشاہدات اور تجربات پر مبنی کئی کہانیاں ترتیب دیں ۔ انہوں نے انسانی حالت کی کمزوریوں کو سچائی کے ساتھ اپنی تحریروں میں جگہ دی۔ ایلس منروکی ایڈیٹر ڈیبورا ٹریزمین اور دیرینہ دوست ڈیوڈ سٹینز نے اے ایف پی کو تصدیق کی کہ منرو کا انتقال۱۳؍ مئی کو اونٹاریو میں اپنے کیئر ہوم میں ہوا۔
منرو نے مختصر کہانیوں کے فن میں انقلاب برپا کیا اور دنیا کو اپنی صلاحیت اور کام سے بتایا کہ یہ فارمیٹ بھی نوبل انعام کے لائق ہے۔ ان کی ۱۴؍ افسانوی مجموعے اور کئی مختصر کہانیوں کی تالیفات شائع ہوئیں۔ اس کام کے ساتھ، وہ۲۰۱۳ء میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی پہلی کنیڈین بن گئیں۔ ’’ڈیئر لائف‘‘ ان کی زندگی کا آخری افسانوی مجموعہ تھا جو ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں شامل کچھ کہانیاں مصنفہ کی اپنی زندگی سے متاثر تھیں تو دوسری کہانیوں میں بھی خواتین کی تقدیر کو تلاش کیا گیا۔ نامور انگریزی ادیب نے ایلس منرو کی وفات کو ادب کیلئے ایک عظیم خسارہ بتایا ہے۔