Inquilab Logo

’مہاوترن‘ ملازمین کے تمام مطالبات تسلیم ، ہڑتال ختم

Updated: January 05, 2023, 1:07 PM IST | Mumbai

دیویندر فرنویس نے ملازمین کو یقین دلایا کہ حکومت کا بجلی محکمے کی نجکاری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اعلان سے قبل بجلی نہ ہونے سے کئی اضلاع میں عوام کو پریشانی اٹھانی پڑی

mahavitaran employees protest against Adani in Nagpur with placards (PTI)
ناگپور میں مہاوترن کے ملازمین اڈانی کے خلاف تختیاں لے کر احتجاج کر رہے ہیں( پی ٹی آئی)

ریاست گیر سطح پر مہا وترن کمپنی کے ملازمین کی جانب سے کی گئی ۷۲؍ گھنٹوں کی ہڑتال محض ۱۴؍ گھنٹوں ہی میں کامیاب ہو گئی۔ ریاستی حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے اور اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ اس کا بجلی محکمے کی نجکاری کرنےکا کوئی ارادہ نہیں ہے  جس کے بعد ملازمین کی تینوں یونینوں ( جنہوں نے ہڑتال کا اعلان کیا تھا) نے اپنی ہڑتال واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ 
  یاد رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ۱۲؍ بجے سے مہاراشٹر میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی ’مہاوترن‘ کے ملازمین ہڑتال پر چلے گئے تھے جس کی وجہ سے ریاست میں ۷۲؍ گھنٹوں تک بلیک آئوٹ کا خدشہ تھا۔ ان کی ناراضگی اس بات پر تھی کہ اڈانی گروپ نے ریاستی حکومت سے مہاراشٹر میں بجلی سپلائی کرنے کا کانٹریکٹ حاصل کرنے کیلئے عرضی پیش کی تھی جو کہ ان یونینوں کی نظر میں غیر آئینی تھا۔ اگر اڈانی کو یہ کانٹریکٹ مل جاتا تو ریاست بھر میں بجلی محکمے کی نجکاری ہو جاتی تو محکمے کے ملازمین اور ریاست کے عوام دونوں ہی کیلئے نقصاندہ ہوتا۔ اسی کے پیش نظر یہ ہڑتال بلائی گئی تھی اور پہلے ہی روز اس کا خاصا اثر دکھائی دیا تھا۔  لیکن بدھ کی دوپہر ایک بجے  نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے ملازمین کی نمائندگی کرنے والی یونینوں کے ذمہ داران کے ساتھ میٹنگ بلائی جس میں مسئلے کا درمیانی حل نکالا گیا۔ سہیادری گیسٹ ہائوس میں بلائی گئی اس میٹنگ  میں نائب وزیراعلیٰ کے علاوہ تینوں یونینوں کے سربراہ اور بجلی محکمے کے اعلیٰ حکام موجود تھے۔   میٹنگ کے دوران ملازمین کے نمائندوں نے نائب وزیراعلیٰ کو بتایا کہ اڈانی گروپ کی  ریاست میں بجلی سپلائی کیلئے مساوی لائن کی خاطر دی گئی عرضی حکومت کو  الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن کے سامنے پیش کرنی چاہئے تھی۔ یعنی خود اسے منظور نہیں کرنا چاہئے تھا۔ دیویندر فرنویس نے میٹنگ کے بعد خطاب کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ    حکومت کا بجلی محکمہ کی نجکاری کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور حکومت آئندہ ۳؍ سال میں ۵۰؍ ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری اس محکمے میںکرنا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن کے سامنے حکومت ملازمین کے حق میں گفتگو کرے گی۔ فرنویس نے کہا عارضی ملازمین کے تعلق سے حکومت کا ارادہ مثبت ہے۔ ساتھ ہی  انہوں نے کہا ’’ ملازمین کے مطالبات اور حکومت کا نظریہ یکساں ہے۔‘‘  فرنویس کی یقین دہانی کے بعد یونین کے ذمہ داران نے کہا کہ ’’ ہم نے ہڑتال کا اعلان مہاراشٹر کے عوام کےمفاد کی خاطر کیا تھا۔ حکومت کے ساتھ ہماری گفتگو مثبت رہی اور ہمارے مسائل کا حل نکل آیا ا س لئے ہم اس ہڑتال کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ 
   ؍ ۱۲گھنٹوں تک ریاست میں افراتفری
  اس سے قبل منگل کی دیر رات ۱۲؍ بجے مہاوترن کے ملازمین کی بڑی تعداد نے ہڑتال شروع کر دی تھی جس کی وجہ سے ریاست کے کئی اہم شہروں میں کاروبار اور روز مرہ کی سر گرمیاں متاثر ہوئیں۔ ہڑتال کا اثر خاص طور پر ، پونے، کولہا پور، رائے گڑھ، رتناگیری اور ناسک  جیسے اضلاع میں دکھائی دیا۔   ہر چند کہ مہاوترن کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ عوام افواہوں پر توجہ نہ دیں ، کمپنی بجلی سپلائی جاری رکھنے کیلئے متبادل انتظام کر رہی ہے اور یہ کہ بجلی سپلائی بالکل بھی متاثر نہیں ہوگی لیکن کمپنی کا یہ دعویٰ اس وقت غلط ثابت ہوا جب پونے جیسے شہر میں کئی چھوٹے موٹے کاروبار بجلی نہ ہونے کے سبب بند رہے۔ یاد رہے کہ پونے چھوٹی صنعتوں کا شہر ہے۔ یہاں چکی، اچار،  اور مسالوں کی کئی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں ہیں جن کیلئے بجلی کا ہونا ضروری ہے۔ ان میں سے اکثر فیکٹریاں بدھ کی صبح بند نظر آئیں۔  پمپری چنچوڑ علاقے میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال رہی۔ دیہی علاقوں میں بھی بجلی نہ ہونے کے سبب عوام کو پریشانی اٹھانی پڑی۔ 
  کولہاپور  بھی پونے کی طرح چھوٹی صنعتوںکا شہر ہے جہاں گڑ سے لے کر چپل تک کئی الگ الگ چیزوں کی فیکٹریاں ہیں۔ یہاں حالانکہ بجلی پوری طرح بند نہیں تھی لیکن بعض علاقوں میں کئی بار بجلی غائب ہوئی پھر بحال ہوئی جس کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال تھی۔ یہاں مہاوترن کے دفتر کے باہر مظاہرہ کرنے والے ملازمین نے تنبیہ کی تھی کہ اگر ۳؍ دنوں میں حکومت نے مطالبات تسلیم نہ کئے تو ۱۸؍ جنوری سے بے مدت ہڑتال کی جائے گی۔  اچل کرنجی کے ملازمین نے بھی کولہاپور کے مظاہرین کی حمایت کی اور بے مدت ہڑتال کی دھمکی دی۔ بھنڈارہ ضلع میں بجلی نہ ہونے کے سبب جہاں گھریلو کام متاثر ہوئے وہیں کسانوں کو بھی کھیتی باڑی کے دوران دقت پیش آئی۔ اس دوران کئی مقامات پر ملازمین نے مظاہرے کئے اور ’ اڈانی گو بیک ‘ کے نعرے لگائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK