Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل کی اشتعال انگیزی پر امریکہ اور بر طانیہ کو تشویش

Updated: January 06, 2023, 11:32 AM IST | washington

امریکہ نے   اسرائیلی وزیراعظم سے کہا کہ وہ مقدس مقامات سے متعلق اپنے وعدے پر قائم رہیں۔ برطانیہ کے مطابق وہ مقدس مقامات کی حیثیت کو برقرار رکھنے کا حامی ہے ، فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ ترکی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ خطے میں کشیدگی بڑھانے والے اقدامات کو روکا جائے

A photo of Israel`s Minister of National Security Itamar Ben-Gvir  visit; Photo: INN
اسرائیل کے وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن جبیر کے دورے کی ایک تصویر; تصویر:آئی این این

   اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر برائے قومی سلامتی کے مسجد اقصیٰ کے دورے کو امریکہ اور بر طانیہ نے بھی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے اور اس  پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب عرب ممالک کی جانب سے بھی اس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے ۔واضح رہےکہ گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیر ایتمار بن جبیر نے زبردستی مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ کر کے فلسطینیوں کو اشتعال دلایا ہے۔ 
  میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ نےا س دور ے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔امریکہ کی نیشنل سیکوریٹی کونسل کے ترجمان نے    اسرائیلی وزیراعظم بنیامیں نیتن یاہو سے کہا کہ وہ مقدس مقامات سے متعلق اپنے وعدے پر قائم رہیں۔ امریکہ بیت المقد س  میں مقدس مقامات کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔ان کے مطابق  مقدس مقامات کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا کوئی بھی یکطرفہ عمل ناقابل قبول ہے۔   
   اسی دوران برطانیہ نے ایک بیان میں کہا کہ برطانیہ مقدس مقامات کی حیثیت کو برقرار رکھنے کا حامی  ہے  لہٰذا تمام فریق ایسے اقدامات سے گریز کریں جن  سے قیام  امن کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو ۔ لندن نے تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ 
 مسجد اقصیٰ اسلام میں تیسرا مقدس ترین مقام ہے، جبکہ یہودی بھی اسے مقدس ترین سمجھتے ہیں۔ ایک معاہدے کے تحت غیر مسلم بھی مخصوص اوقات میں اس جگہ کا دورہ کر سکتے ہیں لیکن وہ وہاں عبادت نہیں کر سکتے۔ حالیہ برس کے دوران یہودی مسجد کے احاطے میں چھپ کر عبادت کرتے ہیں۔اسرائیل اور اردن کے درمیان اکتوبر۱۹۹۴ء میں طے شدہ امن معاہدے کے تحت  مسجد اقصیٰ کا تحفظ اردنی اور القدس ادارہ اوقاف کی ذمہ ہے لیکن شدت پسند یہودی اس معاہدے کے برخلاف زبردستی اور اجازت کے بغیر مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ ایتمار بن جبیر کا یہ دورہ ان میں سے ایک ہے ۔معاہدے کے مطابق یہ بھی غیر قانونی ہے ۔  ایک وزیر کے ذریعہ اس خلاف ورزی پر  شدید احتجاج کیا جارہا ہے۔ 
  قبل ازیں مصر کی وزارت خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اس دورے سے سیکوریٹی اور استحکام پر منفی  اثرات ہوں گے۔ قبل ازیںمسجد اقصیٰ کے منتظم ملک اردن نے اس دورے کی شدید مذمت کی تھی اور اسےمقدس مقام کی خلاف ورزی قرار دیا  تھا۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ دورہ بین الاقوامی قانون اور  بیت المقدس کی تاریخی اور قانونی حیثیت کے خلاف ہے۔ متحدہ عرب امارات اور کویت نے بھی اسرائیلی وزیر کے اس دورے کی مذمت کی ہے۔ قبل ازیںسعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اس دورے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’اشتعال انگیز عمل‘ قرار دیا  تھا۔ عرب ممالک نے اسرائیلی وزیر کے اس دورے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مقدس مقام کی صریح خلاف ورزی کہا ہے۔اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے کہا  تھا کہ یہ  دورہ مسجد اقصیٰ کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کا حصہ ہے۔ اس عمل کا مقصد مسلمانوں کے  جذبات کو مشتعل کرنا ہے ۔ یہ متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں کی  واضح خلاف ورزی ہے۔فلسطین کے وزیراعظم محمد اشتیہ نے دعویٰ کیا  تھا کہ یہ دورہ مسجد اقصیٰ کو ’یہودی عبادت گاہ‘ بنانے کی کوشش تھی۔ 
    ادھر ترکی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ خطے میں کشیدگی بڑھانے والے اقدامات کو روکا جائے۔پاکستانی  وزارت خارجہ نے بھی اس  اقدام کو اشتعال انگیز  قرارد یتے ہوئے اس کی مذمت کی ۔الجزائر کی وزارت  خارجہ نے  بھی اس کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی نیز مسلمانوں اور عیسائیوں کے جذبات مجروح کرنے کی کوشش  بتایا۔تیونسی دفتر خارجہ نے بھی کہا کہ بن جبیر کا دورۂ مسجد اقصیٰ  دنیا بھر کے مسلمانوں کو طیش دلانے کی ایک کوشش ہے جس کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔
  قبل ازیں ایتمار بن جبیر نے اپنے ٹویٹ اس دورےکو قانونی بتایا ۔ انہوں نے کہا ،’’ہماری حکومت حماس کی دھمکیوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتی۔ ٹیمپل ماؤنٹ (مسجد اقصیٰ) اسرائیلیوں کیلئے اہم ترین جگہ ہے۔ہم مسلمانوں اور عیسائیوں کیلئے عبادت کی آزادی کو تسلیم کرتے ہیںلیکن یہودیوں کو بھی اس جگہ جانے کا حق حاصل ہے۔ ہم دھمکی دینے والوں سے سختی سے نمٹیں گے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK