والدہ کے انتقال اورخود بھی موت کے منہ سے واپس آنے کے بعدانہوں نے خدمت خلق کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنا لیا
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 12:19 AM IST | Mumbai
والدہ کے انتقال اورخود بھی موت کے منہ سے واپس آنے کے بعدانہوں نے خدمت خلق کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنا لیا
شبنم عطاء اللہ انصاری جو جوگیشوری میں رہتی ہیں، کاتعلق جھارکھنڈ کے ضلع دھنباد کے ایک متمول خانوادہ سے ہے۔ ابتدائی تعلیم انہوںنے دھنبا د سے ہی حاصل کی ۔ شادی چھوٹی عمر میںہوگئی تھی، مگر انہوںنے اپنےخاوندعطاءاللہ انصاری سے اجاز ت لے کر دسویں اور بارہویں کی پڑھائی سسرال سےمکمل کی۔ شادی کے چند سال بعد شوہر کے ساتھ ممبئی منتقل ہوگئیں، تب سے یہیں مقیم ہیں لیکن آبائی وطن سے رشتہ آج بھی نہ صرف قائم ہے بلکہ گہرا ہے۔ ہر ۶؍ مہینے میں دھنبا د جاتی ہیں۔ رشتےداروں ، عزیزوں اورمتعلقین کےعلاوہ وہاں کے مستحقین اور غریبوںکا حال چال معلوم کرنا، ان کی ضروریات پوری کرنا ،ان کاجنون ہے۔ وہ تقریبا ً ۲۰؍ سال سےباقاعدہ سماجی ، تعلیمی اور طبی خدمات میں حصہ لےرہی ہیں۔ سیکڑوں ضرورتمندوں کی مددکرچکی ہیں۔ جلد ہی بہار کے ویشالی شہر میں جہاں ،ان کا سسرال ہے، لڑکیوںکیلئے ایک اعلیٰ معیار کااسکول قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں ۔
اس سوال پر کہ سماجی ،تعلیمی اورطبی کاموں کی جانب رجحان کیسے پیدا ہوا، شبنم عطاء اللہ انصاری نےبتایاکہ ’’ یہ ۱۹۸۳ءکی بات ہے ،میںاپنے گھردھنبادمیں والدہ کے ساتھ تھی۔ والدہ کچن میں کھانا پکارہی تھیں،اچانک زوردار دھماکہ ہوا، میں دھماکہ کی آواز سن کر کچن کی جانب دوڑی، وہاںآگ کاشعلہ بھڑک چکا تھا اور ماں بری طرح جھلس گئی تھیں ،انہیں بچانےکی کوشش میں ،میں بھی زخمی ہوگئی۔ حادثہ میں میری والدہ جاں بحق ہوگئیں۔ مجھے بھی علاج کیلئےاسپتال داخل کیاگیا۔ ۲؍مہینے بعد اسپتال سے رخصت ہونے پرمیری دنیا بدل چکی تھی۔ میں نے بقیہ زندگی دوسروں کی فلاح وبہبودکیلئے گزارنےکافیصلہ کر لیاتھا۔وہیں سے میری زندگی میں نیاموڑ آیا۔میں نے فیصلہ کیاکہ میں جس لائق بھی ہوں، ضرورتمندوںکی مددکروں گی۔ ‘‘
شبنم عطاءاللہ کےبقول’’ میرے والد کی جواملاک میرے حصہ میں آئی ہے ،اس سےکرایہ کی شکل میںمعقول رقم مل جاتی ہے ۔ وہ رقم میں(تعلیمی ،سماجی اورطبی) فلاحی سرگرمیوں کیلئے گزشتہ ۲۰؍سال سے استعمال کررہی ہوں۔ میرے خاوند عطاءاللہ انصاری بھی اس میں ہمیشہ میرے معاون رہے۔ انہوںنےہر قدم پرمیری حوصلہ افزائی اور ضرورت پڑنے پر مالی مددبھی کی۔‘‘ شبنم انصاری ایک اندازہ کے مطابق اب تک کم و بیش ۵۰۰؍ ضرورت مندوںکی مدد کرچکی ہیں۔ انہوں نے سیکڑوں بے روزگاروںکو روزگار فراہم کرنے میں ، متعدد مریضوں کا علاج کروانے میں اور سیکڑوں بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’حالانکہ میرازیادہ وقت ممبئی میں گزرتاہے لیکن موبائل اور وہاٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے میں دھنباد کے لوگوںسے متواتر جڑی رہتی ہوں۔وہاں کچھ لوگوںکو کام کرنےکی ذمہ داری دی ہے ،جوبڑی پابندی سے اپناکام کر رہے ہیں۔ میرا خواب ہےکہ میں اپنے سسرال ویشالی ضلع میں غریب لڑکیوں کیلئے ایک اعلیٰ اورمعیاری اسکول قائم کروں، تاکہ غریب لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کامیاب کرئیر بناسکیں۔ اسکول کے تعمیرکاکام جلد ہی شروع کرنےکا ارادہ ہے۔ ‘‘
شبنم عطاءاللہ انصاری جن کی نظر میں تعلیم کی کتنی اہمیت ہے،اس کااندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انہوں نے شادی کے بعد سسرال میں ۱۰؍ویں اور ۱۲؍ ویں کی تعلیم مکمل کی ، نے اپنےبچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ان کا ایک بیٹا سوِل انجینئر، دوسرا آرکیٹیکٹ اور تیسرا ایم بی اےہے۔ تینوں اپنے والد (عطاءاللہ انصاری) کے کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ چاہتی ہےکہ معاشرہ کاہر بچہ پڑھالکھاہوتاکہ وہ ایک کامیاب زندگی گزارسکے۔
سماجی کاموں کے علاوہ انہیں امورخانہ داری کابھی خاصہ تجربہ ہے۔انہیں بچپن سے کڑھائی ،بُنائی اور سلائی کا شوق رہا ۔ آبائی وطن کےعلاوہ ممبئی میں بھی یہ مشغلہ جاری ہے ۔ آج بھی سردی کے موسم میں اپنے خاوند اور بیٹوں کا سوئٹر خود بنتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے کڑھائی کئے ہوئے دینی طغرے بھی متعلقین میں مقبول ہیں۔ان کے گھرمیں آویزاں متعدد طغرے ان کےہاتھوں کےبنائے ہوئے ہیں۔ شبنم انصاری لذیذ پکوان بنانےمیں مہارت رکھتی ہیں۔ بہاری کباب،بھوناگوشت ، بریانی اور اس طرح کے دیگر پکوان پکانےمیں ان کاثانی نہیں ۔
شبنم انصاری کی ہمہ جہت شخصیت اگر اپنی مثال آپ ہے توان کے خاوند عطاءاللہ انصاری بھی منفرد خوبیوں کے مالک ہیں۔ماس گروپ کے نام سے ان کی کنسٹرکشن کمپنی نے اپنے کوالیٹی ورک سے مارکیٹ میں جو معیاری مقام حاصل کیاہے وہ کم ہی کاروباریوں کو میسر ہے۔قلیل وقفہ میںکنسٹرکشن کےشعبہ میں انہوں نے جوشہرت حاصل کی ہے وہ ان کی صلاحیتوں کامظہر ہے۔ شہر ومضافات میں ان کےمتعد دپروجیکٹ مکمل ہوچکے ہیں اور کئی مقامات پر تعمیراتی کام جاری ہیں۔اپنی اس کامیابی کا سہرا وہ اپنی اہلیہ کے سر باندھتےہوئے کہتے ہیں کہ ’’ میں وہی مقولہ دہرانا چاہوں گاکہ ہر کامیاب مرد کے پیچھےایک عورت کا ہاتھ ہوتاہے،میری کامیابی میں بھی شبنم کابڑاہاتھ ہے۔ میں نے عملی زندگی کا آغاز معمولی کام سے کیاتھا۔میں بہت نیچے سے اُوپر آیاہوں۔بڑی تگ ودو کےبعد کامیابی ملی ۔ آج میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میں نے اپنی اہلیہ کے تعاون سے حاصل کیاہے ۔ زندگی کے ہرموڑ پر انہوںنے مجھے ہمت اور حوصلہ دیا۔ وہ میرے برے وقت کی ساتھی ہیں۔‘‘
عطاءاللہ انصاری اپنی ساس کے انتقال اور اہلیہ کے زخمی ہونے کےواقعہ کے تعلق سے بتاتے ہیں کہ ’’ یہ حادثہ ہماری شادی کےچندسال بعد ہوا۔ ماں کوبچانےکی کوشش میں وہ خود بھی زخمی ہوگئی تھیں ۔اس کےبعد ان کی زندگی میں جوتبدیلی آئی ، جس طرح انہوں نے حالات پرقابو پاکر نئے سرے سے اپنی زندگی کاآغاز کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔انہوں نے زندگی کوایک خاص مقصد کے تحت گزارنے کا جوفیصلہ کیا اس کی میں قدر کرتاہوں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا رہتا ہوں اللہ ان کاموں کوقبول فرمائے۔‘‘