Inquilab Logo

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے انجمن اسلام کو’سرسید ایوارڈ‘ تفویض کیا گیا

Updated: October 18, 2020, 8:59 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

یومِ سرسید کےموقع پر تعلیمی خدمات کے اعتراف میں میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک نے انجمن اسلام کو اس ایوارڈ سے نوازا، اس موقع پر ستیہ پال ملک نے ترقی کیلئے تعلیم پر زور دیا ، سرسید کے نظریات واصول کو ملک کی تعمیر میں اہمیت کا حامل قراردیا

Zahir Qazi
انجمن اسلام کے صدر ظہیر قاضی اور میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک ورچوئل تقریب کے دوران

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ( اے ایم یو)کی جانب سے یوم ِ سرسید کے موقع پر سنیچر کو منعقدہ ورچوئل تقریب  کےذریعے انجمن اسلام کی تعلیمی اور سماجی  خدمات کے اعتراف میں میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک نے انجمن اسلام ممبئی کو’ سر سید ایکس لینس نیشنل ایوارڈ‘ سے نوازا۔انجمن اسلام کےعلاوہ  امریکہ کی مورخ ڈاکٹر کیل مینالٹ کو بھی سرسید ایوارڈ تفویض کیاگیا۔  ورچوئل تقریب کو  انجمن اسلام سی ایس ٹی ، کریمی لائبریری میں  صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی اور دیگر اراکین نےجوائن کیا۔ڈاکٹر ستیہ پال ملک کی صدارت میں منعقدہ  تقریب میں اے ایم یوکے وائس چانسلر طارق منصور ، پرو چانسلر نواب ابن ِ احمد سعید خان اور دیگر اعلیٰ عہدیداران موجودتھے۔ 
  اس موقع پر اپنی صدارتی تقریر میںستیہ پال ملک نےکہاکہ ’’  یومِ سرسید کی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شریک ہونے کاموقع ملنا میرے لئے فخر کی بات ہے۔سرسید کے یومِ پیدائش پر اے ایم یو اور سرسیدکےپرستا ر جوپوری دنیامیں آباد ہیں،میںانہیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتاہوں۔اے ایم یوکی تعلیمی ، سماجی، ادبی اور قومی خدمات کی طویل فہرست ہے ۔ اس یونیورسٹی نے ملک کی ترقی اور کامیابی میں اہم کردار اداکیاہے۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرنےوالے طلبہ ہندوستان ہی نہیں، پوری دنیا میں انسانیت کی خدمت کررہےہیں۔ سرسید کے نظریات اوراُصول ہندوستان کی تعمیراور ترویج میں اہمیت کےحامل ہیں۔
 ۱۸۶۳ءمیں سرسید نےکہاتھاکہ تعلیم کے ذریعے ہی ہم ہندوستان کےلوگوںکی ترقی کا خواب سجا سکتےہیں۔ہمیں انہیں تعلیم یافتہ کرنےاوراس میں آنےوالی رکاوٹوںکو دور کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ سرسید بالخصوص مسلمانوںکی تعلیمی پسماندگی  سے بہت فکر مند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر اس مسئلہ کو یوں ہی چھوڑدیاگیاتو حالات اور خراب ہوسکتےہیں۔ اس لئے ہندوستان کےلوگوںکو جدید تعلیم سےآراستہ کرنے کیلئے ٹھوس قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ سرسید نےیہ مورچہ سنبھالا اور ہندوستان کو تعلیم کےشعبہ میں مضبوط اور مستحکم کرنےکیلئے بلاتفریق مذہب وملت سب کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے اے ایم یوکی بنیاد رکھی جو آج کامیابی سے جاری ہے۔‘‘
  انہوںنے مزید کہاکہ ’’میرا اس یونیورسٹی سے گہرا رشتہ ہے ۔ اے ایم یو کے احسان کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔میری سیاسی زندگی اور کامیابی میں اے ایم یوکےاساتذہ اور طلبہ نےجوتعاون پیش کیاہےاسے بھولا نہیں جاسکتا ۔یہاں کے طلبہ کا شمار دیش  کے ہونہار طلبہ میں ہوتاہے ۔ اس یونیورسٹی کی ایک خاص بات یہ ہےکہ پڑھائی کی تکمیل کے بعد یہاں کا طالب علم اپنا وجود توساتھ لے جاتاہے مگر اپنی روح یہیں چھوڑ جاتاہے ۔ ‘‘ 
 سرسید کے قومی نظریہ کا تذکرہ کرتےہوئے ستیہ پال ملک نےکہاکہ ’’سرسید نے ہمیشہ قومی یکجتی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ انہوںنےہندو، مسلم ،سیکھ اور عیسائی کو ایک قوم کے طورپر پیش کیا۔ وہ کہتے تھے کہ ہندوستان ایک خوبصورت دلہن ہے اور ہندومسلمان اس کی ۲؍آنکھیں ہیں۔‘‘
 ستیہ پال ملک کےمطابق’’ دنیامیں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو تعلیم پرزور دیتی ہیں۔لیکن یہ کہتے ہوئے مجھے افسوس ہورہاہےکہ ہماری حکومتیں تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دیتیں جودینی چاہئے ۔ تعلیم کابجٹ ۶؍فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا۔ جبکہ تعلیم کا بجٹ زیادہ سے زیادہ ہوناچاہئے کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسی طاقت ہے جوہمیں ساری پریشانیوں سے نجات دلاسکتی ہے ۔‘‘وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصوری نے   اپنی تقریرمیں اے ایم یو کی تاریخ پر سیرحاصل گفتگوکی۔ اس کےساتھ ہی اے ایم یو کے قیام میں سرسید کی قربانیوںاور کاوشوں کی تفصیلات پر روشنی ڈالی ۔ علاوہ ازیں کووِڈ ۱۹؍کے دوران ایم اے یونے نے جو طبی اور سماجی خدمات پیش کیں اس کے تعلق سے اہم معلومات فراہم کی ۔
  انجمن اسلام کو مذکورہ ایوارڈ ملنے پر ڈاکٹر ظہیرقاضی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’انجمن اسلام کیلئے یہ ایک ڈریم ایوارڈ ہے۔تعلیمی خدمات کےاعتراف میں انجمن اسلام کو متعددایوارڈ مل چکے ہیں مگر یہ سب سے اہم اور اعلیٰ ایوارڈ ہے۔انجمن اسلام کیلئے یہ ایک تاریخی اور یادگار اعزازہے۔یہ ایوارڈ انجمن اسلام کے موجودہ مینجمنٹ کےممبران، تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف اور طلبہ کے علاوہ ادارہ کےسابق صدور، مینجمنٹ کے سابق ممبران، سبکدوش ہونےوالے اسٹاف اور انجمن اسلام کےالمنائی کے ساتھ ہی انجمن اسلام کے ان تمام ذمہ داران اور اسٹاف کیلئے جو اب دنیا میں نہیں ہیں ، ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ‘‘
 تقریب میں ڈاکٹر کیل مینالٹ ، اے ایم یوکےرجسٹرار عبدل حامد،پروفیسر شکیل صمدانی، پروفیسر ویبھا شرما، اے ایم یو کے شعبہ عربی سے وابستہ سیدقمرالاسلام اور اے ایم یو کی طالبہ حیات فاطمہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروفیسر مجاہد بیگ نے اظہار تشکر کی رسم ادا کی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK