ماہرین کے مطابق نتیش رانے، گوپی چند پڈلکر اور سنگرام جگتاپ کو دانستہ چھوٹ دی گئی ہے، برسراقتدار خیمہ مہاراشٹر کے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹاکر انہیں فرقہ پرستی میں مصروف رکھنا چاہتا ہے
EPAPER
Updated: October 25, 2025, 12:07 AM IST | Mumbai
ماہرین کے مطابق نتیش رانے، گوپی چند پڈلکر اور سنگرام جگتاپ کو دانستہ چھوٹ دی گئی ہے، برسراقتدار خیمہ مہاراشٹر کے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹاکر انہیں فرقہ پرستی میں مصروف رکھنا چاہتا ہے
وزیر برائے ماہی گیری نتیش رانے نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہندو اپنی سوسائیٹیوں میں ’سور‘ پالیں تاکہ مسلمان ان کے علاقوں میں آ کر نہ رہ سکیں۔ انہی کی طرح بد زبانی کیلئے مشہور بی جے پی کے رکن اسمبلی گوپی چند پڈلکر کا کہنا ہے کہ ہندو لڑکیاں وزرش کیلئے جم خانوں میں نہ جائیں کیونکہ وہاں انہیں ’لوجہاد‘ میں پھنسانے کی سازش ہوتی ہے۔ جبکہ ہندوتوا واد کے نئے برانڈ سنگرام جگتاپ نے احمد نگر کے دکانداروں میں بھگوا جھنڈے تقسیم کئے ہیں کہ وہ اپنی دکانوں پر ان جھنڈوںکو لگائیں تاکہ گاہکوں کو معلوم ہو سکے کہ کون کون سی دکانیں ہندوئوں کی ہیں اور وہ انہی دکانوں سے خریداری کریں۔
ان تینوںکے یہ بیان نہ صرف اشتعال انگیز ہیں بلکہ صریح طور پر غیر آئینی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ تو مہایوتی نے ان اشتعال انگیز بیانات پر اپنے لیڈران سے کوئی باز پرس کی ہے نہ سیکولر پارٹیوں نے ان کے خلاف کوئی قانونی یا عدالتی چارہ جوئی کی ہے ۔ یاد رہے کہ مذکورہ تینوں لیڈران خود کبھی سیکولر پارٹیوں میں ہوا کرتے تھے اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کے خلاف لڑنے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ سنگرام جگتاپ سابق رکن اسمبلی ارون جگتاپ کے بیٹے ہیں جو کٹر کانگریسی ہوا کرتے تھے۔ جب ۱۹۹۹ء میں شرد پوار نے این سی پی کی بنیاد ڈالی تو پوار کے ساتھ کانگریس چھوڑ کر چلے گئے۔ البتہ جب اجیت پوار نے شردپوار سے بغاوت کرکے بی جے پی سے ہاتھ ملایا تو ارون جگتاپ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ اجیت پوار کے باغی گروہ میں شامل ہو گئے۔ ارون جگتاپ کا اسی سال انتقال ہو گیا جس کے بعد سے سنگرام جگتاپ مسلسل اشتعال انگیز بیانات دینے لگے۔سابق وزیر اعلیٰ نارائن رانے کے بیٹے نتیش رانے کے تعلق سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی پرورش سیکولر ماحول میں ہوئی کیونکہ نارائن رانے بال ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسیناکے اہم ستون تھے۔ وہ شیوسینا میں تھے تو اپنی فرپرستی کیلئے مشہور تھے لیکن ۲۰۰۵ء میں جب انہوں نے شیوسینا چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کی تو لامحالہ انہیں سیکولر ازم اختیار کرنا پڑا اور ان کے دونوں بیٹے بھی نتیش اور نلیش بھی آر ایس ایس پر تنقیدیں کرتے، درگاہوں پر چادر چڑھاتے اور بھائی چارے کی باتیں کرتے نظر آنے لگے۔ لیکن ۲۰۱۵ء میں بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد سے باپ بیٹوں نے پھر وہی رنگ اختیار کر لیا۔
گوپی چند پڈلکر کی کہانی سب سے دلچسپ ہے ۔ وہ بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر کے اہم سپہ سالا ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ونچت بہوجن اگھاڑی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا تھا۔ آر ایس ایس کے خلاف لڑائی لڑنے کا عزم ظاہر کیا کرتے تھے۔ جب ایم آئی ایم اور ونچت بہوجن اگھاڑی کا اتحاد تھا تو وہ اسدالدین اویسی کو ’ سنویدھان رکشک‘ ( آئین کا محافظ) کہا کرتے تھے۔ پھر اچانک ۲۰۱۹ء میں انہیں بی جے پی نے اپنے خیمے میں لے لیا۔ اس کے بعد سے وہ بات بے بات تنازع کھڑا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ کبھی وہ شرد پواور جینت پاٹل جیسے قد آور لیڈران کی تضحیک کرتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کے تعلق سے بے وجہ اشتعال انگیز بیان جاری کرتے ہیں۔یہاں ۲؍ اہم سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ تینوں نوجوان اراکین اسمبلی اچانک سیکولر سے کمیونل کیوں ہو گئے؟ دوسرا یہ کہ اس وقت مہایوتی حکومت کو اشتعال انگیز بیانات کی کیا ضرورت ہے؟مہا یوتی نے گزشتہ اسمبلی الیکشن میں غیر معمولی اکثریت حاصل کی تھی اور اس وقت حکومت مستحکم ہے۔ فی الحال کوئی بڑا الیکشن قریب نہیں ہے۔ میونسپل الیکشن میں نظریات یا ایجنڈہ کام نہیں آتا بلکہ مقامی سطح پر کئے گئے کام سے ووٹ حاصل ہوتے ہیں۔ پھرمہایوتی حکومت کی کیا مجبوری ہے جو ان لیڈران کو زہرافشانی کے کام پر لگایا گیا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ تینوں ہی لیڈران کی مہایوتی کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ان تینوں کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔ان کے خلاف سنگین معاملات کی جانچ ہو رہی تھی۔ ایسی صورت میں ان کیلئے برسراقتدار حلقے میں رہنا ضروری تھا۔مہایوتی اعلیٰ کمان نے ان کا استعمال دو قوموں کے درمیان منافرت پھیلانے اور مہاراشٹر کے اعلیٰ لیڈران کی تضحیک کرنے کیلئے کیا گیا۔ نتیش رانے ادھو ٹھاکرے پر انتہائی سطحی زبان میںحملے کرتے رہتے ہیں تو گوپی چند پڈلکر شرد پوار پر رکیک حملے کرتے ہیں۔ مراٹھا کارکن منوج جرنگے کو نشانہ بنانے کا کام بھی انہی دونوںکے حوالے کیا گیا تھا۔ جبکہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی تینوں ہی باری باری کرتے رہتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا خزانہ اس وقت خالی ہے۔ کسانوں کی امداد اور قرض معافی کیلئے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ لاڈلی بہن اسکیم مہایوتی کیلئے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ عوام کو کسی اور رخ پر مصروف رکھا جائے۔ اسی لئے ان لیڈران کو بلاوجہ منافرت پھیلانے کا ذمہ سونپا گیا ہے۔ ہر چند کہ اجیت پوار نے اپنے رکن اسمبلی سنگرام جگتاپ کو نوٹس بھی جاری کیا اور ان سے میٹنگ بھی لیکن جگتاپ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو ۔ یہی حال پڈلکر کا بھی ہے ۔ دیویندر فرنویس کی جانب سے تلقین کے باوجود انہوں نے شرد پوار اور مسلمانوں کے خلاف بیان بازی جاری رکھی۔ ان کے بیانات سے اتنا ضرو ر ہوا ہے کہ مراٹھا سماج اور کچھ دلت کارکنان نے اب منہ کھولنا شروع کیا ہے اور ان کی بے جا زہر افشانی کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کی ہے۔