اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو تعدد ازواج کے معاملے میں قصوروار پائے جانے والوں کو ۷ سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
EPAPER
Updated: November 10, 2025, 6:02 PM IST | Guwahati
اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو تعدد ازواج کے معاملے میں قصوروار پائے جانے والوں کو ۷ سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے بتایا کہ ریاستی کابینہ نے ”آسام پروہیبیشن آف پولیگیمی بل، ۲۰۲۵ء“ کو منظوری دے دی ہے جس میں تعدد ازواج پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ بل ۲۵ نومبر کو ریاستی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو تعدد ازواج کے معاملے میں قصوروار پائے جانے والوں کو ۷ سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
असम कैबिनेट ने बहुविवाह की प्रथा पर रोक लगाने के लिए एक नए अधिनियम को स्वीकृति दी है।
— Himanta Biswa Sarma (@himantabiswa) November 9, 2025
नारी का अपमान करने वालों को बख्शा नहीं जाएगा। pic.twitter.com/meYgQdMuyj
شرما نے بتایا کہ مجوزہ قانون ریاست کے زیادہ تر رہائشیوں پر لاگو ہوگا، لیکن اس میں کئی گروپس کو چھوٹ دی گئی ہے۔ درج فہرست قبائل کو اس پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے اور یہ قانون آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت ”بوڈولینڈ ٹیریٹوریل کونسل، کاربی آلونگ خود مختار کونسل اور دیما ہساؤ خود مختار کونسل“ کے زیر انتظام علاقوں پر فوری طور پر لاگو نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ، جو مسلمان ۲۰۰۵ء سے پہلے سے چھٹے شیڈول والے علاقوں میں رہ رہے ہیں، انہیں بھی مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ”حکومت متاثرہ خواتین کیلئے مالی امدادی فنڈ قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے تاکہ کسی بھی خاتون کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔“
یہ بھی پڑھئے: دہلی: فضائی آلودگی کے خلاف عوام کا احتجاج، آلودگی پرفوری اقدامات کا مطالبہ
خواتین کے حقوق اور سیاسی عزائم
شرما نے اکثر اس پابندی کو مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک اقدام قرار دیا ہے۔ اگرچہ کئی کارکنوں اور خواتین گروپس نے کثیرالازدواجی کی حوصلہ شکنی کی طرف اقدامات کا خیرمقدم کیا، لیکن چند گروپس نے اس بل کے تئیں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے مسلم برادری کے مردوں کو نشانہ بنانے اور انہیں مجرم قرار دینے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’بی جے پی کے دورمیں پھیلی انتخابی دھاندلیوں کا کچراصاف کرنا ضروری ہے‘‘
واضح رہے کہ کثیرالازدواجی فی الحال مسلم پرسنل لاء کے تحت جائز ہے جبکہ ہندوؤں کیلئے اسے ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہندو کوڈ بل کے ذریعے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بی جے پی کی زیر قیادت ریاستوں کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کو آگے بڑھانے کی وسیع تر سیاسی کوششوں کے درمیان آیا ہے، جس کا مقصد تمام شہریوں کیلئے یکساں پرسنل لاء کو متعارف کرانا ہے۔