Inquilab Logo

۲۰۱۶ء سے ہندوستان میں عیسائیوں پر ہونے والے حملوں میں مسلسل اضافہ

Updated: March 25, 2024, 8:02 PM IST | New Delhi

ہندوستان میں ۲۰۱۶ء میں عیسائی برادری اور گرجا گھروں پر حملوں میں ریکارڈ اضافہ درج کیا گیا۔ اس کے بعد سے اقلیت پر حملوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عیسائی تنظیموں کی جانب سے اقتدار پر اقلیتوں کو نظر انداز کرنے کا الزام۔ حکام سے اس جانب توجہ دینے کی اپیل۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

دہلی کی یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) نے ۲۰۲۴ءکے آغاز سے صرف ۵ء۲؍ مہینوں میں ہندوستانی عیسائیوں پر حملوں کے ۱۵۰؍ سے زیادہ واقعات کی نمایاں تعداد کا انکشاف کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم جو عیسائیوں کی وکالت کرتی ہے، یو سی ایف نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ بنیادی شہری حقوق اور ہندوستانی عیسائیوں کے تحفظ کی بڑے پیمانے پرخلاف ورزی ہو رہی ہے اور ان معاملات میں چھتیس گڑھ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد اتر پردیش کا نمبر آتا ہے۔ 
یو سی ایف نے کہا کہ ’’ہندوستان میں مجموعی طور پر ۱۹؍ ریاستیں ایسی ہیں جہاں عیسائیوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی وجہ سے جان کے خطرات لاحق ہیں۔ جنوری میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے ۷۰؍ واقعات ہوئے۔ اس کے بعد فروری کے ۲۹؍ دنوں میں ۶۲؍ واقعات اور مارچ ۲۰۲۴ءکے ۱۵؍ دنوں میں ۲۹؍ واقعات ہوئے۔ ‘‘ 
یو سی ایف کی ۲۰۲۳ء کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھا کہ تشدد کی زیادہ تر مثالیں ہجومی ہیں جو ایک مخصوص عقیدے کے گروہوں کی طرف سے منظم انداز میں کی جاتی ہیں، جن کو مبینہ طور پر اقتدار کے عہدوں پر موجود افراد کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی سرپرستی میں ہراساں کئے جانے کے بھی قوی شواہد کی موجود گی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ 
سیکڑوں گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کے متعدد واقعات کو منی پور سے منسوب کیا گیا ہے۔ امپھال کے آرچ بشپ نے جون ۲۰۲۳ءمیں لکھے گئے ایک خط میں دعویٰ کیا کہ مئی ۲۰۲۳ءمیں تشدد پھوٹنے کے بعدمحض ۳۶؍ گھنٹوں میں میتئی عیسائیوں کے ۲۴۹؍ چرچ کو تباہ کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں کہا گیا ہے کہ تباہ ہونے والی عبادت گاہوں کی تعداد ۶۴۲؍ ہے۔ تاہم، یہ بتانا ضروری ہے کہ یو سی ایف ڈیٹا ان دعوؤں کے باوجود کہ `خطے میں بڑے پیمانے پر مذہبی حملے کئے گئے ہیں، عیسائیوں کے خلاف منی پور تشدد کے واقعات کو شامل نہیں کرتا۔ 
ان واقعات پر روشنی ڈالنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود حکومت کی جانب سے سست روی کا مظاہرہ کیا گیا، اقتدار کے عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے اس کی بابت بہت کم کام کیا گیا ہے جبکہ وزیر اعظم مودی دوسرے ممالک کے عیسائیوں سے ملاقات اور اظہار یکجہتی کیلئےتشہیری دورے کرتے رہتے ہیں۔ 
۱۹۵۱ء میں قائم تنظیم دی ایوینجلیکل فیلوشپ آف انڈیا (ای ایف آئی) ملک بھر سے مسیحی برادری پر مختلف قسم کے حملوں کا ڈیٹا درج کر رہی ہے۔ کئی برسوں میں یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ ۲۰۱۶ءمیں اچانک تیزی آئی اور یہ تعداد ۱۷۹؍ سے بڑھ کر ۲۴۶؍ ہو گئی۔ اگلے ہی سال ایک بار پھر کافی اضافہ درج کیا گیا، جس سے تعداد میں تقریباً ۱۰۰؍ کا اضافہ ہوا۔ پھر بھی ایک اور نمایاں چھلانگ ۲۰۲۱ء میں ۵۰۵؍ تک دیکھی گئی، جو ۲۰۲۰ء میں ۳۲۷؍ تھی۔ یہ تعداد ۲۰۲۲ء میں ۵۹۹؍تک پہنچ گئی۔ لیکن ایک بار پھر ۲۰۲۳ءمیں ان واقعات میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۲۳ء کی مذہبی آزادی کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں عیسائی مخالف تشدد کے ۶۰۱؍واقعات میں پریشان کن اضافہ درج کیا گیا۔ بہر حال، مسلسل تشدد کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ 
۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق عیسائی ہندوستان کی کل آبادی کا تقریباً ۳ء۲ فیصد ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) عیسائیوں کے خلاف حملوں کے اعداد و شمار کے الگ زمرے کو اکٹھا نہیں کرتا۔ اس کے اعداد و شمار میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں ۵۰؍ برسوں میں حالات سب سے زیادہ پرامن ہیں کیونکہ ۱۹۷۰ء اور ۲۰۲۱ءکے درمیان فسادات میں مسلسل کمی آئی ہے۔ چونکہ ملک آئندہ عام انتخابات کیلئے تیار ہے، تنظیمیں حکام سے اس خطرناک معاملے سے نمٹنے کی درخواست کرتی ہیں۔ 
یو سی ایف نے کہا ہے کہ ’’یہ ضروری ہے کہ ہندوستانی حکومت اور متعلقہ ریاستی انتظامیہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں اور تمام مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور ہم پرامن اور منصفانہ انتخابات کی امید اور دعا کرتے ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK