عہد جاہلیت میں اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ اسی کے جواب میںرسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لئے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیا ہے ، عید الاضحی اورعید الفطر۔‘‘
جامع مسجد ۔ تصویر : پی ٹی آئی
جس طرح ہر قوم کے تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتے ہیں، اسی طرح مذہب اسلام میں بھی عیدوں کا ایک حسین، دلکش اور ایمان افروز پس منظر ہے۔ خالص اسلامی فکر ونظر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تہذیب وتمدُّن، معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز مکہ سے ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں ہوا۔ہجرت کے دوسرے سال ہی روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہوا اور اسی سال عیدالفطر کا عظیم تحفہ ملا۔ در اصل عید روح کی لطافت، قلب کے تزکیہ، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی اور نذرانۂ شکر بجا لانے کا نام عید ہے۔چنانچہ رسولؐ اللہ کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں صرف عید ہی نہیں بلکہ عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی مندرجہ ذیل حدیث میں ملتا ہے۔
’’ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسولؐ اللہ نے ان سے پوچھا ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں یعنی اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے، رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لئے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیا ہے ، یوم (عید) الاضحی اور یوم (عید) الفطر۔‘‘
غالباً وہ تہوار جو اہل ِمدینہ اسلام سے پہلے عہد ِجاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ ’’نو روز‘‘ اور ’’ مہرجان‘‘ کے ایام تھے۔ رسول اللہؐ نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عیدالفطر اور عیدالاضحی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمایا ہے۔
رمضان المبارک ایک انتہائی با برکت مہینہ ہے ۔ یہ ماہ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں ، مغفرتوں اور عنایات و برکات کا خزینہ ہے۔ جب بندۂ مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر اور اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات، لایعنی جذبات، جسمانی لذات، ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز و سربلند ہوتا ہے، تو وہ رشک ِ ملائک بن جاتا ہے، اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے، ازراہِ کرم عنایتِ باری تعالیٰ کا یہ تقاضا بن جاتا ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار، سراپا تسلیم و اطاعت اور پیکر صبر و رضا بندے کیلئے اِنعام و اِکرام کا ایک دن مقرر فرما دے۔ چنانچہ یہ ماہ ِ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہو جاتا ہے۔ رمضان کی آخری رات فرمانِ رسولؐ کے مطابق ’’یومِ الجزاء‘‘ قرار پائی ہے اور اللہ کے اس اِنعام و اِکرام سے فیض یاب ہونے کے بعد اللہ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال کی پہلی صبح کو یومِ تشکُّر کے طور پر مناتا ہے۔ بس یہی حقیقت ِ عید ہے اوریہی روحِ عید ہے۔