اپوزیشن کے ساتھ ہی حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی فیصلے سے ناراض، اکھلیش یادو نے اس فیصلے کو عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیا
EPAPER
Updated: October 01, 2025, 9:15 AM IST | Hamidullah Siddiqui | Lucknow
اپوزیشن کے ساتھ ہی حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی فیصلے سے ناراض، اکھلیش یادو نے اس فیصلے کو عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیا
اتر پردیش میں ذات پات پر مبنی ریلیوں اور ناموں پر روک کے احکامات کے بعد ریاست کی بڑی سیاسی جماعتوں میں بےچینی پائی جا رہی ہے۔ ذات کے نام پر انتخابی مہم چلانےپر سخت کارروائی کے امکانات نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ اتر پردیش کی سیاست میں یہ صورتحال اُس وقت پیدا ہوئی جب ریاستی حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ذات پر مبنی ریلیوں اور ذات کے نام کے سیاسی استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی۔سرکاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی مقاصد سے منعقد ہونے والی ذات پر مبنی ریلیاں سماج میں نسلی و ذات پات پر مبنی کشیدگی کو فروغ دیتی ہیں، جو نہ صرف عوامی نظم و نسق بلکہ قومی یکجہتی کے بھی خلاف ہے لہٰذا ایسی ریلیوں پر اتر پردیش میں مکمل پابندی رہے گی۔حکومت کے اس فیصلے نے سیاسی اور سماجی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
ریاست میں دہائیوں سے ذات پات کاایشو سیاست کا اہم ستون رہا ہے، لیکن اب حکومت کی سخت ہدایات کے بعد تمام بڑی جماعتوں کو اپنی حکمت عملی پر از سرِ نو غور کرنا پڑ رہا ہے۔یہ فیصلہ جہاں اپوزیشن جماعتوں کیلئے بڑا سیاسی چیلنج بن گیا ہے، وہیں حکمراں اتحاد کی اتحادی جماعتوں میں بھی بےچینی اور برہمی پائی جا رہی ہے۔نشاد پارٹی کے سربراہ اور ریاستی وزیر سنجے نشاد حکومت کے فیصلے پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے یہ کہہ چکےہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اس فیصلے پر دوبارہ غور کرنا چاہئے۔ اگر ضرورت ہو تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ جن طبقات کا اب تک استحصال ہوتا رہا ہے، انہیں جمہوری طریقے سے اپنی بات رکھنے کا حق حاصل ہے۔
سماجوادی پارٹی کے صدراکھلیش یادو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بی جے پی کو جب عوامی مسائل پر جواب دینا مشکل ہوتا ہے تو وہ ذات پات کی باتوں کو ہتھیار بنا لیتی ہے، اسےاگر واقعی ذات پات کے معاملوں پر روک لگانی ہے تو پہلے حکومت اپنے طرزِ عمل میں برابری دکھائے۔ وہیں،بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی اس موضٰوع پر کہاکہ کچھ لوگ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کی بات کرتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو اب بھی انصاف نہیں ملتا۔ اگر ذات پات پر سیاست بند کرنی ہے تو سرکاری سطح پر امتیاز بھی ختم ہونا چاہئے۔
بعض دیگر سیاسی لیڈروں نے بھی’انقلاب ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی ذات پات پر مبنی سیاست پر سخت پابندی لگتی ہے تو یوپی کی سیاسی بساط ہی بدل جائے گی کیونکہ اکثر پارٹیوں کی جڑیں اسی بنیاد پر قائم ہیں۔ کانگریس ترجمان علیم اللہ خاں نے کہا کہ حکومت ذات پات کے نام پر سیاست کے خلاف کارروائی کی بات کرتی ہے، مگر عملی طور پر خود مذہب اور برادری کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے۔ یہ دُہرا رویہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ راشٹریہ لوک دل کے ریاستی نائب صدر وسیم حیدر نے اپنے بیان میں کہا کہ ذات برادری پر مبنی سیاست عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کے مطابق سیاست ایسی ہونی چاہئے جس سے ہر طبقے کو فائدہ پہنچے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ حالیہ دنوں میں ذات برادری کی سیاست تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کے باعث وہ لوگ نقصان میں ہیں جن کی برادری کا کوئی بڑا سیاسی لیڈر نہیں ہے۔
آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کےقومی نائب صدروسیم راعین نے اپنے بیان میں کہا کہ ذات پر مبنی ریلیوں پر پابندی سے سیاسی جماعتوں میں بےچینی ضرور ہے، لیکن یہ پابندی ادھوری ہے کیونکہ صرف ریلیوں پر نہیں بلکہ اُن سیاسی پارٹیوں پر بھی روک لگنی چاہیے جو ذات کے نام پر بنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کُشواہا،نشاد، یادو، ملاح، راج بھر وغیرہ جیسی ذات پر مبنی سیاست کرنے والی پارٹیوں پر بھی الیکشن کمیشن کو کارروائی کرنی چاہئے اور اگر اس فیصلے کا اطلاق ہوا اور اس پر مکمل پابندی لگائی گئی توذات پات کی سیاست کرنے والی پارٹیوں کا صفایا ہو جائے گا۔