بھیونڈی، ممبئی، تھانے، ممبرا، کلیان، ناسک، مالیگاؤں، کولہا پور ،ناندیڑ، رائے گڑھ اور دیگر شہروں سے۴۷؍ اسکولوں کےطلبہ کی شرکت۔
اچل کرنجی کے ڈاکٹر علامہ اقبال اردو ہائی اسکول کی طالبہ عشرت اظہرالدین ملّا اول انعام حاصل کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی میں۶۶؍واں کل مہاراشٹر بین المدارس اردو تقریری مقابلہ سنیچر کو نہایت جوش و خروش اور علمی وقار کے ساتھ منعقد ہوا۔ ریاست بھر سے آئے ہوئے باصلاحیت طلباء اور طالبات نے مدلل، بامقصد اور فکری تقاریر کے ذریعے سامعین کو متاثر کیا۔مقابلے میں بھیونڈی، ممبئی، تھانے، ممبرا، کلیان، ناسک، مالیگاؤں، کولہا پور ،ناندیڑ، رائے گڑھ اور دیگر شہروں سے۴۷؍ اسکولوں کے طلباء اور طالبات شریک ہوئے۔ ان میں اچل کرنجی کے ڈاکٹر علامہ اقبال اردو ہائی اسکول کی طالبہ عشرت اظہرالدین ملّا اول انعام حاصل کیا۔ دوم انعام بھی اچل کرنجی کے اردو ہائی اسکول ،اچل کرنجی کی عافیہ آدم عرب کے حصے میں آیاجبکہ سوم انعام سویس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، مالیگاؤں کے محمد مصعب شیخ عقیل نے حاصل کیا۔چہارم انعام انصاری منیبہ انصاری اعجاز احمد (ڈاکٹر پیر محمد رحمانی گرلز ہائی اسکول، مالیگاؤں) اورپنجم انعام محمد عمر عرفان احمد مومن (نیشنل اردو ہائی اسکول، دھولیہ) کو دیا گیا۔
حوصلہ افزائی کے انعامات میںپہلا انعام انصاری آمنہ محمد طارق (نیو نیشنل اردو ہائی اسکول، بھیونڈی)،دوسرا خان محمد مجیب قمر احمد (صلاح الدین ایوبی میموریل ہائی اسکول، بھیونڈی)،تیسرا انصاری محمد کامران محمد کوثر (صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیَر کالج، بھیونڈی)،چوتھا شیخ حسنین عمر (رفیع الدین فقیہ بوائز ہائی اسکول، بھیونڈی) اورپانچواں رقیبہ شعیب خان (رما بائی ساہکار نگر میونسپل اسکول، ممبئی) کو دیا گیا۔خصوصی اعزازات میں بہترین مقرر کا خطاب محمد مصعب شیخ عقیل اور بہترین مقررہ کا اعزاز انصاری آمنہ محمد طارق کو ملا جبکہ بہترین مصنف کا انعام ابراہیم فیض (ڈاکٹر علامہ اقبال اردو ہائی اسکول، اچل کرنجی) کو ان کے مضمون ’غروبِ آفتاب ہی طلوعِ آفتاب ہے‘پر دیا گیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر معین الدین الحاق (جامعہ ہمدرد) نے کہا کہ آج کے دور میں اردو کے یہ ننھے مقرر ملت کے ترجمان بن کر دنیا کے سامنے آئیں گے۔ اسلاموفوبیا کے موجودہ ماحول میں ایسے باخبر اور باحوصلہ نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے جو دلیل اور وقار کے ساتھ حق کی آواز بلند کر سکیں اور آج کے طلبہ نے اس کی جھلک پیش کی ہے۔
معروف کالم نویس انجینئر غلام عارف نے کہا کہ صرف ماضی پر فخر کافی نہیں بلکہ مستقبل کی تعمیر کے لئے حال کے مشترکہ قومی مسائل پر سنجیدہ گفتگو ضروری ہے، اور تقریری مقابلوں میں اس پہلو کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔
کتبہ شناس اور سابق ڈائریکٹر محکمۂ آثارِ قدیمہ ہند ڈاکٹر خواجہ غلام السیدین ربانی نے بھیونڈی کو اردو زبان کی آبیاری کرنے والا شہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری تہذیبی شناخت اور قیمتی ثقافتی اثاثہ ہے۔ اس کی خالصیت، نفاست اور بلاغت کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے، تاکہ سماج میں ہماری لسانی شناخت برقرار رہے۔
تقریب میں ایڈوکیٹ یاسین مومن، دانیال قاضی اور پرنسپل ضیاءالرحمان انصاری نے بھی اظہارِ خیال کیا، جبکہ پروگرام کی کامیاب نظامت شمیم اقبال اور عامر اصغر قریشی نے کی۔