• Thu, 23 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھیونڈی : ۶؍ ماہ میں ۱۴۲؍ نابالغ لاپتہ، لڑکیوں کی تعداد زیادہ

Updated: July 30, 2025, 7:28 AM IST | Khalid Abdul Qayyum Ansari | Mumbai

گھریلو تناؤ، جھوٹی محبت اور سوشل میڈیا کا فریب — معصوم ذہنوں پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ پولیس کے مطابق ۹۰؍ فیصد بچوں کو تلاش کرلیا گیا

In the last 6 months, between January and June, 142 children have gone missing from Bhiwandi city.
گزشتہ ۶؍ مہینوں میں، جنوری سے جون کے درمیان، بھیونڈی شہر سے ۱۴۲؍بچے لاپتہ ہوئے ہیں۔

یہاں کی گلیوں میں پاورلومز کی گڑگڑاہٹ روز و شب جاری رہتی ہے۔ مشینوں کا شور اتنا مسلسل ہے کہ اب یہاں کے شہریوں کو اس کی عادت ہو چکی ہے۔ لیکن ان مشینوں کے بیچ ایک اور آواز بھی ہے، جو کمزور ہے، دب چکی ہے۔ یہ بےبسی میں ڈوبی آواز اُن والدین کی ہیں، جو اپنے لاپتہ بچوں کو پکارتی ہیں۔ وہ ایک ہی بات دہراتے ہیں’’میرا بچہ کہاں ہے؟‘‘
 گزشتہ ۶؍ مہینوں میں، جنوری سے جون کے درمیان، بھیونڈی شہر سے ۱۴۲؍بچے لاپتہ ہوئے ہیں۔ ان میں ۹۵؍لڑکیاں ہیں اور ۴۷؍ لڑکے۔ پولیس کی کاوشوں سے ۱۲۶؍ بچوں کو بازیاب کر لیا گیا ہے لیکن ۱۶؍ بچے اب بھی لاپتہ ہیں — جن میں ۱۳؍ لڑکیاں شامل ہیں۔ یہ صرف گنتی نہیں، یہ ۱۶؍ کہانیاں ہیں، ۱۶؍والدین کی نم آنکھیںاور ۱۶؍گھروں کا سناٹا ہے۔
 وجوہات
  ڈی سی پی ششی کانت باروٹ نے انکشاف کیا کہ زیادہ ترمعاملات میں بچے گھریلو دباؤ، والدین کی سختی، امتحان میں ناکامی یا موبائل و سوشل میڈیا کے گمراہ کن تعلقات کی وجہ سے گھر چھوڑ گئے۔ کئی لڑکیاں سوشل میڈیا یا جھوٹے عشق کے جال میں پھنسی تھیں۔ ان سے محبت کا وعدہ کیا گیا لیکن ملا صرف استحصال۔اور جب وہ بازیاب ہوئیں، تو صرف جسمانی نہیں، جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار تھیں۔ ایسے معاملاتمیں’ `پوکسو‘ جیسے سخت قوانین تو نافذ کئے گئے مگر جو زخم ان کے دل میں ہیں، ان کا علاج قانون سے نہیں، سماجی فہم و شعور سے ہی ممکن ہے۔
 شہر کے ۶؍ پولیس اسٹیشن شانتی نگر، بھیونڈی شہر، نارپولی، نظام پور، بھوئی واڑہ اور کونگاؤں میں نابالغ بچوں کے گمشدگی کے کیس درج ہوئے۔ ہر پولیس اسٹیشن میں بچوں کی بازیابی کے لئے الگ ٹیمیں بنائی گئی ہیںجن کی بدولت تقریباً ۹۰؍فیصد بچوں کو ڈھونڈ نکالا گیا۔
 خاموشی کے اسباب کیا ہیں ؟
 تھانے سیول اسپتال کے ماہر نفسیات ڈاکٹر وجے تیلی خبردار کرتے ہیں کہ یہ صرف گمشدگی نہیں بلکہ والدین اور بچوں کے درمیان بڑھتے فاصلے کی علامت ہے۔جب گھر میں بات چیت ختم ہو جائے، جب موبائل کی اسکرین والدین کی آنکھوں سے زیادہ قریب ہو جائے، جب بچے تنہائی میں سوشل میڈیا پر مشورہ ڈھونڈنے لگیں — تو ایسی ہی خبریں جنم لیتی ہیں۔
  بچوں کا لاپتہ ہونا صرف ایک ایف آئی آر نہیں بلکہ ایک سماجی الارم ہے۔ کیا ہمارا گھر بچوں کے لئے محفوظ ہے؟ کیا ہم نے بچوں کو سننے، سمجھنے اور وقت دینے کا سلسلہ ترک کر دیا ہے؟ اگر ہم وقت پر نہیں جاگے، تو اگلی گمشدگی صرف ایک بچہ نہیں، ایک پوری نسل کو ہم سے دور لے جائے گی۔ پولیس یقینی طور پر قابلِ تعریف کام کر رہی ہے لیکن مسئلہ صرف تلاش اور بازیابی کا نہیں — یہ اس زخم کا بھی ہے جو بچے اپنے دل پر لے کر واپس آتے ہیں۔ ہمیں ان کے اعتماد کی بحالی، ان کی ذہنی صحت کی مرمت اور انصاف کی فراہمی کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔ شہر میں لاپتہ ہر بچہ ایک سوال ہے اور یہ سوال صرف پولیس سے نہیں، ہم سب سے ہے — والدین، اساتذہ، اداروں، اور معاشرے سے۔کیا ہم سننے کو تیار ہیں؟ کیا ہم روکنے کو تیار ہیں؟کیونکہ بچپن اگر ایک بار چھن جائے تو صرف بچہ نہیں کھوتا — پورا سماج کمزور ہو جاتا ہے۔کیا ہم اپنے بچوں سے دوبارہ جڑنے کو تیار ہیں؟ اب وقت ہے کہ مشینوں کی آوازوں سے نکل کر اپنے بچوں اور اہل خانہ پر توجہ مرکوز کریں۔

bhiwandi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK