• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بارش سے فصلوں کے نقصان کی وجہ سے قبائلیوں کی دیوالی پھیکی!

Updated: October 14, 2025, 3:35 PM IST | Khalid Abdul Qayyum Ansari | Bhiwandi

قبائلیوں کے ذریعے تیار کی گئی بانس کی رسیاں مہنگی قیمت کی وجہ سے فروخت نہیں ہو رہی ہیں۔

Ropes made of bamboo are available in the market, but there are very few buyers. Photo: INN
بانس سے بنی رسیاں بازار میں موجود تو ہیں لیکن خریدار بہت کم ہیں۔ تصویر: آئی این این
تعلقہ کے مشہور پڑگھا ہفتہ وار بازار میں اس اتوار کو بانس سے بنی رسی فروخت کرنے آئے ہوئے قبائلی مرد و خواتین کے چہروں پر مایوسی اور فکر صاف جھلک رہی تھی۔ گزشتہ دنوں ہونے والی موسلا دھار بارش نے علاقے کی دھان کی فصل سمیت دیگر کھیتوں کو نقصان پہنچایا ہے، جس پر مہنگائی کے اثر نے مزید مشکلات بڑھا دی ہیں۔ نتیجتاً، قبائلی طبقہ کا یہ روایتی اور وقتی پیشہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
بانس سے تیار کی جانے والی یہ رسی دھان کی کٹائی کے موسم میں خاص طور پر استعمال ہوتی ہے۔ کسان کھیتوں میں دھان کے بھرے گٹھروں کو باندھنے کیلئے اسی رسی کا سہارا لیتے ہیں۔ قبائلی خواتین و مرد بانس کو چھیل کر، خشک کر کے اور کئی دنوں کی مشقت کے بعد یہ رسی تیار کرتے ہیں، جسے وہ گاؤں گاؤں کے بازاروں میں فروخت کیلئے لاتے ہیں۔ یہ کاروبار سال میں صرف ایک بار تقریباً ۸؍ دن کے لئے چلتا ہے اور بہت سے غریب خاندانوں کے لئے اضافی آمدنی کا واحد سہارا ہوتا ہے۔گزشتہ برس یہ رسی ۱۰۰؍ عدد کے حساب سے ۱۵۰؍تا ۲۰۰؍ روپے میں فروخت ہوتی تھی، لیکن اس سال مہنگائی کے سبب قیمت ۲۵۰؍ تا ۳۰۰؍روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ایک رسی اب تقریباً ڈھائی تا ۳؍ روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ تاہم، قیمتوں میں اضافے کے باعث خریداروں کی تعداد گھٹنے سے فروشوں کو امید کے مطابق کمائی حاصل نہیں ہو رہی۔
عام طور پر ایک فروخت کنندہ کو ۲۵۰۰؍ تا ۳؍ہزار روپے تک آمدنی ہو جاتی تھی مگر اس سال بہت سے افراد کو اتنی بھی کمائی نصیب نہیں ہوئی۔پڑگھا، پچھاپور، اوبرکھنڈ، نیواڈا، کھاتیولی، دہاگاؤں، سارمال اور ڈوہولے جیسے دیہات سے آنے والے قبائلی خاندان اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں اکثر گھرانوں کے تمام افراد اس محنت طلب عمل میں شریک ہوتے ہیں رسی تیار کرنا، سکھانا، بازار میں لانا اور فروخت کرنا۔ یہی ایام ان کی سال بھر کی محنت کا پھل ہوتے ہیں، جس پر دیوالی کے اخراجات اور روزمرہ زندگی کا بوجھ منحصر رہتا ہے۔
رسی فروخت کرنے کیلئے آئی سنیتا کالچیندانے نے بتایا کہ ’’ہم دھوپ میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں، مگر اس سال پچھلے برسوں جیسی فروخت نہیں ہو رہی۔۲؍ پیسے کمانے کی امید پر آتے ہیں مگر خریدار کم ہیں۔‘‘کسانوں نے بھی تصدیق کی کہ بڑھتی قیمتوں کے باعث اب وہ بڑی مقدار میں خریداری نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دھان کی کٹائی میں استعمال ہونے والے تمام سامان مہنگے ہو گئے ہیں، اس لئے بندھ یعنی بانس کی رسی کم خریدنی پڑ رہی ہے۔ مقامی تاجروں اور سماجی کارکنوں نے کہا کہ پچھلے دنوں کی بارش اور بڑھتی مہنگائی کے دوہرے اثر نے قبائلی طبقے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان حالات میں ضرورت ہے کہ انتظامیہ یا سماجی ادارے ان قبائلی خاندانوں کے لئے فوری امداد، متبادل روزگار یا بازار میں فروخت کو فروغ دینے کے اقدامات کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK