متعدد انتخابی حلقوں سے حاصل کی گئی معلومات اور ای آر اوز سےگفتگو کے بعد تیار کی گئی رپورٹ میں یہی دعویٰ کیاگیاہے، اب بنگال اور دیگر ریاستوں میں بھی اندیشہ
EPAPER
Updated: December 17, 2025, 11:52 PM IST | New Delhi
متعدد انتخابی حلقوں سے حاصل کی گئی معلومات اور ای آر اوز سےگفتگو کے بعد تیار کی گئی رپورٹ میں یہی دعویٰ کیاگیاہے، اب بنگال اور دیگر ریاستوں میں بھی اندیشہ
ایسے وقت میں جبکہ مغربی بنگال، راجستھان، گوا ، پڈوچیری اور لکش دیپ میں ایس آئی آر کا پہلا مرحملہ مکمل ہونے کے بعد مشتبہ ووٹرس کو نوٹس جاری کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے، بہار میںالیکٹورل رجسٹریشن آفیسرس(ای آر اوز) کو الیکشن کمیشن کے دہلی دفتر سے پہلے سے پُر کئے گئے نوٹس ملنے کے انکشاف نے کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بہار میں جب ایس آئی آر اپنی تکمیل کے قریب تھا، تب پوری ریاست میں الیکٹورل رجسٹریشن آفیسرس (ای آر اوز) کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مرکزی پورٹل پر اپنے انفرادی لاگ اِن پر’’پہلے سے بھرے ہوئے نوٹس‘‘ ملے۔
یہ نوٹس جن کی تعداد لاکھوں میں بتائی گئی ہے، بہار کے اُن ووٹرس کے نام تھے جنہوں نے پہلے ہی اپنے فارم اور معاون دستاویزات جمع کرا دیئے تھے اور جن کے نام اگست میں شائع ہونے والی ڈرافٹ لسٹ میں بھی موجود تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ نوٹس پر ای آر اوز کے نام بھی تھے حالانکہ نوٹس انہوں نے جاری نہیں کئے تھے۔ ضابطہ سے یہ انحراف اس لئے تشویش کا باعث ہے کہ اس ضمن میں قانون بہت ہی واضح ہے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ ۱۹۵۰ء کے تحت، اسمبلی حلقے کا ای آر او اور صرف ای آر اوہی کسی ووٹر کی اہلیت پر شبہ کرنے اور نوٹس جاری کرنے کا مجاز ہے۔
۱۷؍ اگست کی پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے بھی اس اصول پر زور دیاتھا۔ انہوں نے ایس آئی آر کے’’مرکزی دفتر سے کنٹرول نہ ہونے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ’’ میں، میرے ساتھی الیکشن کمشنر الیکشن کمیشن کا کوئی اہلکار یا آپ بھی قانونی عمل کی پیروی کے بغیر ووٹ شامل کرسکتے ہیں نہ خارج کر سکتے ہیں۔‘‘ یہ اختیار چونکہ صرف ای آر اوز کو ہے اس لئے بہار کا یہ معاملہ کئی ای آر اوز کیلئے حیرت کا باعث بنا۔ متعدد نے ان نوٹسوں پر عمل کرنے یا انہیں آگے بڑھانے سے گریز کیا۔
سرکاری ڈیٹا کے مطابق یہ عمل بڑے پیمانے پر ناموں کے اخراج کا باعث نہیں بنا مگر اس کی وجہ سے کئی سوالات ضرور قائم ہوئے ہیں۔ اہم سوال یہی ہے کہ دستاویز جمع ہونے کے بعد جانچ کا اختیار کس کے پاس ہے؟ ایس آئی آر میں شامل رہنےوالے بہار حکومت کے ۵؍عہدیداروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ یہ نوٹس ۲۵؍ ستمبر کی آخری تاریخ سے قبل، دعوؤں اور اعتراضات کے تصفیے کے دنوں میں، الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کی ویب سائٹ پر ای آر اوز کے لاگ اِن پر نمودار ہونے لگے تھے۔ نوٹس مکمل طور پر پُر کئے ہوئے تھے،صرف ای آر او یا نائب ای آر او (اے ای آر او) کے دستخط کے بعد انہیں بوتھ لیول افسران (بی ایل اوز) کے ذریعے ووٹروں تک پہنچانا تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس بنیاد پر بہار میں کتنے ووٹرس کو نوٹس جاری ہوئے تاہم نوٹس وصول کرنے والوں میں راشٹریہ جنتا دل کے رکن اسمبلی اسامہ شہاب بھی شامل تھے، جو سیوان کے راگھوناتھ پور کے ووٹر ہیں۔ بہرحال ان کا نام برقرار رہا۔ ان کے بی ایل او، جے شنکر پرساد چورسیا، نے کہا کہ مسئلہ’’تکنیکی‘‘ تھا اور دستاویزات دوبارہ جمع کرانے کے بعد حل ہو گیا۔
الیکشن کمیشن کی اس ضمن میں بھی خاموشی تشویش کا باعث ہے۔ انڈین ایکسپریس نے۱۲؍ دسمبر کو کمیشن کواس تعلق سے تفصیلی سوالنامہ بھیجا مگر کوئی جواب نہیں دیاگیا جبکہ بہار کےچیف الیکٹورل افسر نے بھی بات نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ مغربی بنگال میں نوٹس جاری کرنے کا عمل شروع ہوا ہے، تشویش کااظہار کیا جارہاہے۔