وطن جاکر حق رائے دہی کا استعمال کرنے والوں نے زمینی حقائق کی بناء پر اقتدار کی تبدیلی کو یقینی بتایا ۔ گڑبڑ کئے جانے کے خدشے سے انکار بھی نہیں کیا۔
بہار کے رائے دہندگان نے اسمبلی الیکشن میں جوش وخروش سے حصہ لیا تھا۔ تصویر:آئی این این
آج ۱۴؍نومبر کو بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے والے ہیں ،سب کی نگاہیں اسی پرہیں مگر ممبئی میںمقیم بہارکےباشندے کچھ زیادہ ہی بے صبری سےاس کا انتظار کررہے ہیں۔وہ اس دفعہ بہار میںاقتدار کی تبدیلی کویقینی بتا رہے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک زمینی حقائق اورووٹروں کی دانشمندی اورسوجھ بوجھ ہے ۔ نمائندۂ انقلاب نے بہار کے رہنے والے ایسے رائےدہندگان سے بات چیت کی جو بہار جاکر حق رائے دہی کااستعمال کرکے ممبئی لوٹ آئے ہیں یا نتائج دیکھ کر لوٹیںگے۔ان کے مطابق جو کچھ انہوں نے زمینی سطح پر دیکھا، جس طرح مسلمانوں نے بڑی حد تک اپنے ووٹوں کوبکھراؤ سے بچایا اور مجموعی طور پر ریکارڈ توڑووٹنگ کی گئی ، اس سے وہ بہار میں اقتدار کی تبدیلی کو یقینی قرار دے رہے ہیں۔
سمستی پور کے رہنے والے پھول بابو جھا(میتھلے اسوسی ایشن کے ذمہ دار) نے نمائندۂ انقلاب سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جس طرح سے اس دفعہ بہار میں ووٹنگ ہوئی ہے اور رائے دہندگان نے جوش وخروش کے ساتھ ووٹ دیا ہے اس سے ’ستّہ پریورتن(اقتدار کی تبدیلی )‘ یقینی ہے اوراس دفعہ تیجسوی کو وزیراعلیٰ بننے سے کوئی روک نہیںسکتا، شرط ہے کہ گڑبڑ نہ کی جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی ۵؍وجوہات بتائیں۔ اوّل یہ کہ زمینی سطح پر جو کچھ نظرآیا ،وہ ایگزٹ پول سے مختلف ہے، دوسرے ہرطبقے کے رائے دہندگان نے جوش وخروش کے ساتھ حق رائے دہی کا استعمال کیا اور آئی ایس آر کے سبب وہ ووٹ دے کراپنانام فہرست رائے دہندگان میں مزید پختہ کرنا چاہتے تھے۔ تیسرے نتیش راج جو ایک طرح سے نتیش کم مودی راج زیادہ ہوگیا تھا، اس کو بدلنا چاہتے تھے ۔چوتھے اس دفعہ مسلم اور یادو ووٹروں نےایک ہوکر ووٹ دیا ہے اورپانچویں بے روزگاری، مرکز کی بہار سے وعدہ خلافی،پرواسی مزدور، مہنگائی اور نوجوانوں کے مسائل ۔اس کے علاوہ اس دفعہ یہ بھی نظر آیا کہ رائے دہندگان نے نفرت اور تفریق کی سیاست کو رَد کرتے ہوئے حقیقی مسائل پر توجہ دی ہے ۔ ‘‘
ممبئی میں اہل بہار کی بڑی تنظیم ’باشندگان ِبہار‘ کے صدر انور شیخ نے بتایا کہ ’’ووٹنگ فیصد ہی نہیں رائے دہندگان نے اپنی حکمت ِ عملی سے بھی سیاستدانوں کو چونکا دیا ہے اورآج اسی کےمطابق بہار کے نتائج آنے کی پوری توقع ہے۔ ‘‘ ان کایہ بھی کہناہےکہ’’ یہ الیکشن کئی لحاظ سے مختلف تھا ، سیکولر امیدواروں کو کامیاب بنانے کی کوشش، ووٹ کوتقسیم سے بچانا، مدعوں پرحق رائے دہی ، ووٹنگ میں حصہ لینے کیلئے بڑی تعداد میں ووٹروں کا اپنے وطن پہنچنا اورووٹوں کو منتشر ہونے سے بچانا ، ان عوامل کی بناءپر جو تفصیلات پورے بہار سے ملیں، وہ خوش آئند ہیںاوروہ اقتدار کی تبدیلی کی جانب یقینی طور پراشارہ کررہی ہیں۔‘‘
مولانا عبدالقدوس شاکر حکیمی جواپنے حلقۂ انتخاب سیتامڑھی میں حق رائے دہی کیلئے گئے ہوئے ہیں، ان کاکہنا ہے کہ اچھا ماحول ہےاوربیشتر لوگوں کی زبان پراقتدار کی تبدیلی ہی ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ اب لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور وہ لمبے چوڑے جھوٹے وعدے ، جنگل راج کی رٹ ، سیاسی بیان بازی ، نہ پورے کئےجانے والے وعدے اور ہندو مسلم کی سیاست سے عاجز آچکے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ آج نتیجہ عوام کی توقع کےمطابق آتا ہے یا پھر سیاسی بازیگر کچھ ’ کھیلا ‘کرجاتے ہیں۔
ممبئی سے اپنے آبائی وطن دربھنگہ دیہی حلقۂ انتخاب میں رائے دہی کے بعد اب بھی اپنے حلقے میں موجود مولانا محمدرضوان قاسمی نے بتایا کہ’’ جس طرح کے حالات دکھائی دیئے، مرد و خواتین کی تقریباً ہر بوتھ پر طویل قطاریں نظرآئیں اور بغیرتشہیر کے فرقہ پرستوں کو شکست دینے کے منصوبے کےپیش نظر اس بات کی قوی امیدہےکہ نتیجہ عام آدمی کی توقع کے مطابق ہوگا اور سب سے بڑی پارٹی راشٹریہ جنتادل ہوگی اورمہا گٹھ بندھن کی حکومت بنے گی۔ ‘‘ مولانا نے بھی یہ دہرایا کہ دیگر ریاستوں ہریانہ اور مدھیہ پردیش وغیرہ کی مثال دیتے ہوئے لوگ گڑبڑ کئے جانے کے اندیشے سے انکار نہیں کررہے ہیں پھر بھی وہ اقتدار کی تبدیلی کو یقینی محسوس کررہے ہیں۔
پٹنہ سے تعلق رکھنے والے راکیش سنہا کی رائے قدرے مختلف تھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ ووٹنگ تو زبردست ہوئی ہے مگر پہلے د ن سے ہی ایگزٹ پول این ڈی اے کی زیادہ سیٹیں دکھا رہے ہیں۔ اس لئے اب آج رزلٹ کے بعد ہی طے ہوگا کہ وہ کتنا درست تھا یا انہوں نے ایگزٹ پول کی شکل میں لوگوں کو پس وپیش میں مبتلا رکھا۔‘‘