Inquilab Logo

بلقیس بانو معاملہ:رہائی کے دستاویزات میں مجرموں کے گھناؤنے کرتوت کا ذکر تک نہیں ہے

Updated: May 03, 2023, 9:29 AM IST | new Delhi

رپورٹس کے مطابق رہائی کے دستاویز میں بلقیس بانو کی ساڑھے تین سالہ بچی کو پیٹ پیٹ کر قتل کرنے، ایک دن کی بچی کو قتل کرنے اور حاملہ بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کو چھپالیا گیا ہے

Bilkis Bano, victim of Gujarat riots
گجرات فسادات کی متاثرہ بلقیس بانو

سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کیس کے ۱۱؍مجرموں کی رہائی کے خلاف دائر عرضی پرسماعت ہوگی۔ اس دوران گجرات حکومت کو وہ دستاویزات پیش کرنے ہیں، جن کی بنیاد پر اس سنگین معاملے کے مجرموں کو رہا کیا گیا تھا۔ ۲۷؍ مارچ کی سماعت میں عدالت نے گجرات سرکار سے قصورواروں کی رہائی کا فیصلہ کرنے سے متعلق دستاویزات طلب  کئے تھے جسے فراہم کرنے سےگجرات حکومت بچنے کی کوشش کررہی تھی ۔ اس معاملے میں  ۱۸؍ اپریل کو بھی سماعت ہوئی لیکن اس دن بھی حکومت عدالت میں دستاویزات پیش کرنے سے قاصر رہی۔ سوال یہ ہے کہ ان دستاویزات میں کیا ہے جن کی بنیاد پر مجرموں کو رہا کیا گیا؟  اس تعلق سے ہندی اخبار  ’ دینک بھاسکر‘ نے ان دستاویزات کے بارے میں سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔
 دینک بھاسکر نے اپنی خصوصی رپورٹ میںدعویٰ کیا  ہے کہ بلقیس بانو کے خلاف سنگین جرم کی نوعیت گجرات حکومت  کےدستاویز میں چھپائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلقیس بانو کی ساڑھے تین سالہ بچی کو پیٹ پیٹ کر قتل کرنے، ایک دن کی بچی کوقتل کرنے اور حاملہ بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کے بارے میں ایک لفظ بھی دستاویزات میں نہیں ہے۔ اس واقعہ میں ایک نابالغ لڑکی کی بھی اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی۔ دستاویزات میں صرف اتنا لکھا گیا  ہے کہ کار سیوکوں سے بھری سابرمتی ایکسپریس ٹرین کی بوگیوں کو نذر آتش کرنے کے بعد گودھرا میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے اور متاثرین اور ان کے اہل خانہ تشدد سے بچنے کے  لئے رندھیک پور گاؤں سے دوسری جگہ جا رہے تھے۔  اس دوران  ان پر مشتعل بھیڑ نے قیصر باغ کے جنگل میں حملہ کر دیا۔ اس دوران متاثرہ کی عصمت دری کی گئی اور دیگر مسلم خواتین کو قتل کر دیا گیا۔
 اس کے علاوہ ان دستاویزات میں قانونی خامی بھی موجود ہیں۔ دراصل گجرات حکومت کو مجرموں کی رہائی کے لئے ۵؍ اعلیٰ افسران یا اداروں کی رائے لینے کی ضرورت تھی۔ رپورٹ کے مطابق ۵؍ میں سے ۳؍نے اس گھناؤنے جرم کے مجرموں کی رہائی کی منظوری دی، تاہم ۲؍ اداروں نے جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے قبل از وقت رہا نہ کرنے کی رائے دی۔  ان پانچوں میں پہلا نام    سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہے، دوسرا، تفتیشی ایجنسی یعنی سی بی آئی، تیسرا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، چوتھا  وہ عدالت ہے جس نے سزا سنائی اور پانچواں وہ جیل ہے جس میں مجرمین فی الحال قید تھے۔
  اب سوال یہ ہے کہ پانچ میں سے وہ دو ادارےکون  سے ہیں جنہوں نے مجرموں کی رہائی کے فیصلے پر اتفاق نہیں کیا۔ بتایا جارہا ہے کہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اسپیشل کرائم برانچ اور سی بی آئی نے مجرموں کو رہا نہ کرنے کے حق میں رائے دی تھی۔ سی بی آئی نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ یہ جرم اتنا سنگین اور گھناؤنا ہے کہ بغیر کسی رحم کے ہم اس معاملے میں اپنی رائے منفی دیتے ہیں۔ سی بی آئی نے کہا تھا کہ مجرموں کو وقت سے پہلے رہا نہیں کیا جانا چاہئے۔ساتھ ہی ممبئی سیشن کورٹ نے حکومت کے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ قتل اور اجتماعی عصمت دری کے گھناؤنے جرم میں سزا کاٹ رہے قیدیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ حکومت کے قوانین کے مطابق قیدیوں کو کسی بھی صورت میں رہا نہیں کیا جانا چا ہئے۔بلقیس بانو کے علاقے کے پولیس سپرنٹنڈنٹ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور جیل انتظامیہ نے مجرموں  کی رہائی کے حق میں رائے دی۔ غور طلب ہے کہ مجرموں میں سے ایک جس کا نام رادھے شیام شاہ ہے کی رہائی کی سفارش ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے بھی نہیں کی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK