اعتراف کیا گیا کہ کانگریس کے داؤ بی جے پی پر بھاری پڑرہے ہیں
کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست فاش نے پارٹی کو سنجیدگی سے غورو فکر کرنے پر مجبورکردیا ہے۔اس سلسلے میں بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں پر مشتمل ایک میٹنگ ہوئی جس میں لیڈروں نے یہ اعتراف کیا ہےکہ اب کانگریس کے انتخابی داؤ بی جے پی پر بھاری پڑ رہےہیں۔ذرائع کے مطابق پرانی پنشن اسکیم، مفت بجلی، بے روزگاروں کے لیے بے روزگاری الاؤنس، گیس سلنڈر کی قیمتوں میں کمی اور خواتین کے لیے خصوصی الاؤنس کے کانگریس کے وعدوں نے نہ صرف ہماچل پردیش اور کرناٹک جیسی ریاستوں کو بی جے پی سے چھین لیا ہے، بلکہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ کمیٹی نے مشاہدہ کیا ہے کہ اگر پارٹی نے اپنی حکمت عملی نہیں بدلی تو اسے آئندہ کچھ ریاستوں میں ہونے والےاسمبلی انتخابات اور۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
پارٹی کے جنرل سکریٹری بی ایل سنتوش اور کرناٹک کے انچارج ارون سنگھ کے ساتھ میٹنگ میں بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں نے اعتراف کیا کہ کرناٹک ان کے ہاتھ سے نکلنے کی ایک بڑی وجہ کانگریس کے انتخابی وعدے اور اعلانات تھے جس کا بی جے پی کوئی جواب نہیں دے سکی۔ اس کے ساتھ ہی لیڈروں نے اعتراف کیا کہ پارٹی قیادت اور کارکنوں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان نے بھی پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔بی جے پی کے ایک قومی سطح کے لیڈرکا کہناہے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس کی مقبول عام اسکیموں نے عوام کے ایک حصے کو متاثر کیا ہے،یہی وجہ ہے بی جے پی کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑ سکتی ہے۔ ان کے مطابق اگلے انتخابات میں پارٹی نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتر سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے بھی خواتین، نوجوانوں اور دیگر طبقات کے لیے فلاحی اسکیموں کے ذریعے ان طبقات کے لیے کافی کام کیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار پرنجوائے گوہا ٹھاکرتا نے کا کہنا ہے کہ ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے کمزور شہریوں کی مدد کرے اور اسے مثبت انداز میں دیکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی سیاسی جماعتیں عوام سے یہ وعدہ کرتی ہیں، انہیں اس کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ملتا ہے لیکن وہ ہماچل پردیش اور کرناٹک میں کانگریس کی جیت کو صرف ان اسکیموں تک محدود نہیں رکھنا چاہتے۔ ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے تنگ آکر لوگ متحد ہوگئے جس کی وجہ سے بی جے پی حکومتوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔گوہا ٹھاکرتا نے کہا کہ کرناٹک کے انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ بی جے پی نے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھا، لیکن سماج کے دیگر طبقات نے اس کی پالیسیوں کے خلاف ریلی نکالی اور بی جے پی کی بہت جارحانہ اور قیمتی انتخابی مہم کام نہیں کر سکی۔ ہماچل پردیش میں اقلیتی طبقہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اس کے بعد بھی بی جے پی نے وہی مسائل اٹھائے۔ اس کا نتیجہ اسے شکست کی صورت میں دیکھنا پڑا۔قابل ذکرہےکہ بی جے پی لیڈروں نے یہ بات ایسے وقت میں قبول کی ہے جب کہ لوک سبھاانتخابات اگلے ہی سال ہیں ۔