Inquilab Logo Happiest Places to Work

ووٹروں کوقریب لانے کیلئے بی جے پی کمربستہ

Updated: June 17, 2024, 12:09 AM IST | Mumbai

لوک سبھاالیکشن میں اسے دھچکالگااور اس کی سیٹوں کی تعداد۲۳؍سے گھٹ کر۹؍ہوگئی لیکن این ڈی اے اور اپوزیشن کے ووٹ شیئرمیں فرق صرف۰ء۳؍ فیصدکا ہے جسے وہ ختم کرنا چاہتی ہے۔ ’گھرگھرچلو ابھیان‘ کا منصوبہ جس میں دلتوں اور مراٹھوں پر خاص نظرہوگی

In Maharashtra, the NDA, especially the BJP, has suffered a lot in the Lok Sabha elections. (file photo)
مہاراشٹر میں این ڈی اے خاص طورپربی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں کافی نقصان ہوا ہے۔ (فائل فوٹو)

لوک سبھا انتخابات میں مہاراشٹر میں بی جے پی   کارکردگی خراب رہی  جس کی وجہ سے اس کی سیٹوں کی تعداد ۲۳؍ سے گھٹ کر۹؍ رہ گئی۔ اسی لئے اس نے   بڑے پیمانے پر’گھر گھر چلو ابھیان ‘کا منصوبہ بنایا ہےجس کا مقصد رائے دہندگان سے رابطہ قائم کرکے اسے پارٹی سے قریب لانا ہے۔ یہ انتخابی نتائج کا ابتدائی جائزہ لینے کیلئے جمعہ کو  پارٹی کی ریاستی قیادت کی منعقدہ میٹنگ میں کئے گئے بہت سے فیصلوں میں شامل تھا۔
 امسال کے آخر میں سمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اسی لئےبی جے پی نے اب مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کے گورننس ٹریک ریکارڈ کے بارے میں رائے دہندگان کو   قائل کرنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کیلئے ایک کثیرجہتی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مہم کے ذریعے پارٹی کا منصوبہ ہے کہ وہ دلت، قبائلی اور مراٹھا سماج  تک پہنچیں جو پارلیمانی انتخابات کے دوران بظاہر اس سے دور ہو گئے  ۔ میٹنگ میں بی جے پی کے سینئر لیڈران شامل تھے جن میں نائب وزیراعلیٰ دیویندر فرنویس،  بی جے پی  کے ریاستی صدر چندر شیکھر باونکولے، قومی جنرل سیکریٹری ونود تاوڑے اور مرکزی وزیر پیوش گوئل جو ممبئی نارتھ کے رکن پارلیمان ہیں، نے کیڈر کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی اورایک ایک ووٹر سے رابطہ قائم کرنے پر زور دیا۔ 
این ڈی اے کو۴۳ء۶؍ اور ایم وی اےکو ۴۳ء۹؍ فیصد ووٹ ملے
  ذرائع نے بتایا کہ دیویندرفرنویس جنہوں نے اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے اور ’پارٹی کیلئے خودکو وقف کرنے‘ کی پیشکش کی تھی، نےاس بات کی نشاندہی کی کہ مہایوتی حکمراں اتحاد اور اپوزیشن مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) بلاک کے درمیان ووٹ شیئر میں  صرف۰ء۳؍ فیصد کا فرق ہے۔ ایک ذریعہ نے ان کے حوالے سے کہا کہ ہم اس خلاء کو آسانی سے پُر کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم اپنے ووٹ کا حصہ ۱ء۵؍ فیصد بڑھاتے ہیں تو ہم اسمبلی انتخابات جیت جائیں گے۔ بیک فٹ پر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہم واپسی کریں گے۔‘‘  این ڈی اے کو لوک سبھا انتخابات میں ۴۳ء۶؍ فیصد ووٹ ملے جبکہ ایم وی اے  (مہاوکاس اگھاڑی ) کو ۴۳ء۹؍فیصد   ۔ 
 ’اپنی غلطیوں کی اصلاح‘ کے ایک حصے کے طور پر  بی جے پی نے سابق مرکزی وزیر بھگوت کراڈ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو لوگوں کے تاثرات پر غور کرتے ہوئے ضلعی سطح پرانتخابی نتائج کا تجزیہ کرے گی۔
اپوزیشن کے ’آئین کوبچائیں‘ پروپیگنڈے سے مقابلہ کا عزم
 انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اس بارے میں بی جے پی کے ریاستی صدر باونکولے نے کہاکہ ’’ہمیں لوگوں تک پہنچ کر اور آئین اور مراٹھا ریزرویشن کے مسئلہ پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کے پروپیگنڈے کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنا ہے۔‘‘ بی جے پی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ اپوزیشن کے ’آئین کو بچائیں‘ بیانیہ نے لوگوں  خاص طور پر دلت جو ریاست کی آبادی کا۱۳ء۵؍فیصد  ہیں، کو متاثر کیا۔ اسی لئے پارٹی سے دور چلے جانے والے دلت ووٹروں کو واپس لانے کیلئے بی جے پی کے کارکنان آئین کے ۷۵؍ سال پورے ہونے کی یاد میں ریاست بھر میں سال بھر منعقد کی جانے والی تقریبات کے ایک حصے کے طور پر سماج سے جڑیں گے۔ ذرائع کے مطابق ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (اٹھاولے) کے صدررام داس اٹھاولےجو  بی جے پی کے حلیف ہیں، کو پروگراموں کی منصوبہ بندی کیلئے تیار کیا گیا ہے۔
 دلت ،مراٹھوں اور کسانوںکو قریب لانے کی کوشش
 ایک سینئربی جے پی لیڈر نے کہا کہ ’’یہ فرنویس کےوزیراعلیٰ  کے دور(۲۰۱۹ء-۲۰۱۴ء) میں ہواتھا کہ لندن میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دادر کی اندو مل میں   امبیڈکر میموریل ایک اور سنگ میل ہے جس کے ساتھ ہم اپوزیشن کے بیانیے کا مقابلہ کریں گے۔ ہم دلتوں کی بہتری کیلئے مرکزی اور ریاستی سماجی بہبود کی اسکیموں کی فہرست بھی مرتب کریں گے۔
 دریں اثناء مراٹھا تنازع بی جے پی کیلئے ایک چیلنج بناہوا ہے جس کے پیش نظر ریاستی وزیر چندرکانت پاٹل کی قیادت میں ایک پینل تشکیل دیا گیاہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مراٹھاسماج جو ریاست کی آبادی کا تقریباً ۳۳؍ فیصد ہے، کاپارٹی پر اعتماد بحال ہو۔ اس کیلئے انہوںنے مشورہ دیاہے کہ پارٹی لیڈروں اور اراکین اسمبلی کا ایک گروپ ریاست کے ہر ضلع میں مراٹھا تنظیموں کے ساتھ بات چیت شروع کرے۔ ایک ذریعہ نے کہا کہ پارٹی اس حقیقت پر زور دینا چاہتی ہے کہ مراٹھاسماج کو۲۰۱۸ء میں جب دیویندر فرنویس   وزیر اعلیٰ تھے، ریزرویشن دیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس اقدام کو منسوخ کر دیا کیونکہ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی مہاوکاس اگھاڑی حکومت قانونی طور پر اس کا دفاع نہیں کر سکی تھی۔ اس کے علاوہ ہم اس بات پر بھی زور دینا چاہتے ہیں کہ ایکناتھ شندے کی قیادت والی مہایوتی حکومت نے اس سال کے شروع میں مراٹھاسماج کو ریزرویشن دیا تھا ۔
 بی جے پی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ پارٹی تعلیم میں مراٹھوں کے کوٹے کے فوائد کی بھی نشاندہی کرے گی۔ بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہاکہ ’’ہم انہیں قائل کریں گے کہ ہمارے مخالفین نے ہمیں مراٹھا مخالف قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ بات چیت اور بحث و مباحثہ کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
 ذرائع نے بتایا کہ بی جے پی ریاست بھر میں او بی سی، دلت اور مراٹھا لیڈروں کو بااختیار بنا کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنےکا بھی کام کر رہی ہے۔دوسری طرف پارٹی ودربھ، مراٹھواڑہ اور شمالی مہاراشٹر کے اپنے گڑھوں پر بھی باریک بینی سے نظر رکھے گی   جہاں فصلوں کی قیمتوں میں کمی اور فوری ریلیف فراہم کرنے میں حکومت کی ناکامی کے مسائل پر کسانوں میںبڑے پیمانے پر بے چینی کا امکان ہے۔ حالیہ انتخابات میں پارٹی کواس سے نقصان پہنچا۔ کسان لیڈر وجے جوانڈیا نے کہاکہ ’’کسانوں کے مفادات مرکز کی پالیسی سازی میں مرکزی حیثیت نہیں رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہوئی ہے جس کا اظہار لوک سبھا انتخابات میں ہوا۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ سویا بین کی قیمتوں میں گراوٹ نے ودربھ میں بی جے پی کی کارکردگی کو متاثر کیا ہے ۔ دالوں کی گرتی ہوئی قیمتوں اور پیاز کی  ایکسپورٹ پالیسی پر مرکز کے فلپ فلاپ نے اسے بالترتیب مراٹھواڑہ اور شمالی مہاراشٹر میں نقصان پہنچایا ہے۔ یہ تینوں علاقے   ریاست کی ۲۸۸؍ اسمبلی سیٹوں میں سے مجموعی طورپر۱۴۵؍ سیٹوں پر مشتمل ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK