Inquilab Logo

کورونا کے سبب اسپتالوں میں خون کی کمی، مریض پریشان

Updated: April 09, 2021, 2:12 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

خون کا ذخیرہ نہ ہونے سے بالخصوص تھیلسمیا میں مبتلا بچےمسائل سے دوچار، خون تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر اور بیٹھے بیٹھے گرجاتےہیں،اعلیٰ افسران کے مطابق ہر سال ان مہینوں میں دقت ہوتی ہے لیکن اس سال کورونا کی وجہ سے پریشانیوں میںمزید اضافہ ہے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

اسپتالوں میں خون کی کمی سے عام مریضو ں کے علاوہ تھیلسیمیامیں مبتلا مریض زیادہ پریشان ہیں۔ بالخصوص تھیلسمیامیں مبتلا بچوںکا خون نہیں تبدیل کئے جانے سے وہ بیٹھے بیٹھے گر جارہے ہیں۔وہ چلنے سے قاصر ہیںاورانہیں بے انتہاکمزور ی محسوس ہورہی ہے۔ گزشتہ ۳؍دنوں میں کے ای ایم اسپتال کےتھیلسمیاکیلئےمختص ڈے کیئر یونٹ سے پچاسوں بچوںکو خون نہ ہونے کی وجہ سے واپس کیا گیا ہے۔اسٹیٹ بلڈ ٹرانسفیوژن کونسل کے ڈائریکٹر کے مطابق ہرسال اس موسم میں کالجوں کے بندہونےاور عوام کے آبائی وطن جانے سے خون کی قلت ہوتی ہے۔ امسال کووڈ کی وجہ سے آئی ٹی اور کارپوریٹ سیکٹر بھی بند ہیں۔اس لئے ان کے دفاتر میں بھی بلڈ ڈونیشن کیمپ نہیں ہورہاہے جس سے پریشانی بڑھی ہے۔مدنپورہ کے محمد ارشاد نے بتایاکہ ’’میرے ۲؍ بیٹے محمد غفران ( ۲۳) اور محمد ریحان(۱۴) کو تھیلسمیا کی شکایت ہے ۔ ان کا علاج کے ای ایم اسپتال کے ڈے کئیریونٹ تھیلسمیا میجر وارڈ سے ہوتاہے۔ ہر ۱۵؍ دنوں پر ان کے خون کو تبدیل کیاجاتاہے۔ حالانکہ اسپتال والےپورا خیال رکھتے ہیں مگر خون نہ ہونے سے وہ بھی پریشان ہیں۔ ہمیں بھی خون کا انتظام کرنےکیلئے کہتے ہیںلیکن ان دنوں ہر اسپتال اور بلڈبینک میں خون کی قلت ہے۔ جس سے مریضوں کو پریشانی ہورہی ہے۔ میرے بیٹے گزشتہ ۳؍دنوں سے کے ای ایم اسپتال جارہےہیں مگر خون نہ ہونے سے انہیں لوٹا دیاجارہاہے۔ گزشتہ ۳؍دنوں میں ۵۰؍سے زائد بچوںکو خون نہ ہونے سے لوٹایا گیا ہے۔ جس سے ان بچوںکوشدید تکلیف ہورہی ہے۔ تھیلسمیا میں مبتلا بچوںکا ہیموگلوبین تیزی سے کم ہوتاہے۔ جس سے انہیںچلنے پھرنےمیں دشواری ہوتی ہے اور وہ بے انتہا کمزور ہوجاتے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے گر جاتےہیں۔ کسی کام کےلائق نہیں رہتےہیں۔میرے بیٹوں کا ہیمو گلوبین ۵؍پوائنٹ پر آگیاہے۔ جس کی وجہ سےوہ گر جاتے ہیں۔انہیں رفع حاجت میں تکلیف ہوتی ہے۔ کھانا نہیں کھاتےہیں۔ اس طرح کی متعدد پریشانیاں انہیں گھیر ے ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی شہر ومضافات کے مختلف علاقوں سےبچے خون تبدیل کرانےکیلئے آرہےہیں مگر خون کے نہ ہونے سے سب پریشان ہیں۔ کرلا کی کہکشاں ،خوشبو اور صبانام کی ۳؍بہنیں بھی تھیلسمیا میں مبتلا ہیں۔ یہ تینو ںبھی گزشتہ ۳؍دنوں سے آرہی ہیں مگر ان کا بھی خون تبدیل نہیں کیاگیاہے۔ جس سے ان کی پریشانی بڑھ گئی ہے ۔ ان کیلئے روزانہ کرلا سے پریل آنابھی ایک مسئلہ ہے۔ جمعرات کو ۱۷؍ بچو ں میں سے صرف ساحل نام کے ایک بچے کو جس کا ہیموگلوبین ۳؍ پوائنٹ پر آگیاہے کا خو ن تبدیل کرنےکیلئے اسے اسپتال میں روکا گیاہےباقی تمام بچوں کو واپس کردیاگیاہے۔ اسی طرح ممبرا کی ۱۴؍سالہ سہانہ آصف انصاری کی گزشتہ دنوں گڑھے میں گرنے سے کمرکی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔اسے علاج کیلئے محمد علی روڈ پر واقع الصادق اسپتال میں داخل کیاگیاتھا۔ سہانہ کے آپریشن کیلئے خون کی ضرورت تھی مگر متعدد بلڈ بینک میں خون کا اسٹاک نہ ہونے سےمتعلقین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ سہانہ کے رشتے دار محمد عابد نے بتایاکہ اتوار کو ہم نے سہانہ کو اسپتال داخل کیاتھا ۔ جہاں ڈاکٹروںنے اس کے آپریشن کیلئے او پازیٹیو خون کی ایک بوتل کا انتظام کرنےکیلئے کہاتھا۔ متعدد بلڈ بینکوں کا چکر لگانے کے باوجود خون کا انتظام نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے آپریشن میں تاخیر ہوئی ۔ 
  اسٹیٹ بلڈ ٹرانسفیوژن کونسل کے ڈائریکٹرڈاکٹر انل تھورات سے اس بارےمیں استفسارکرنے پر انہوں نے کہاکہ ’’اس مہینے میں ہمیشہ خون کی کمی کی شکایت موصو ل ہوتی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اپریل ،مئی اور جون کے علاوہ اکتو بر نومبر میں خون کی قلت معمول کی بات ہے۔ان مہینوں میں دراصل کالج کے نوجوان طالب علم آبائی وطن چلے جاتےہیں جس سےبلڈ ڈونیشن کیمپ کے ذریعے حاصل ہونےوالے خون کی مقدار کم ہوجاتی ہے ۔خون کا عطیہ دینے والوںکی تعداد کے کم ہونے سے یہ مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ امسال کووڈ کی وجہ سے زیادہ پریشانی ہورہی ہے کیونکہ آئی ٹی اور کارپوریٹ سیکٹربھی بندہیں۔ان مقامات پر بھی بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقادکیاجاتا ہے جہاںسے اچھی مقدار میں خون جمع ہوجاتاتھا۔ مگر کورونا وائرس کی وجہ سے آئی ٹی اور کارپوریٹ سیکٹر بندہیں ۔ جس سے ان ڈپارٹمنٹ سے ملنے والا خون رک گیا ہے۔ اس طرح کی متعدد رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے خون کا عطیہ دینے والے نہیں مل رہے ہیں۔اس کے باوجودہماری کوشش ہےکہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کیلئے خون کا انتظام کیاجائے ۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK