مئی میں مورتی کی بے حرمتی پرمسلم نابالغ پکڑاگیا ، جس کے بعد مسلم مخالف نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔
EPAPER
Updated: July 09, 2025, 11:31 AM IST | Prajakta Joshi | Mumbai
مئی میں مورتی کی بے حرمتی پرمسلم نابالغ پکڑاگیا ، جس کے بعد مسلم مخالف نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔
پونے کے مُلشی تعلقہ کے پَوڈ گاؤں میں رہنے والے راشد (نام تبدیل) کا کہنا ہے کہ وہ۱۱؍ سال کے تھے جب اپنے خاندان کیساتھ یوپی سے روزگار کی تلاش میں یہاں آئے۔ گزشتہ تین دہائی میں انہوں نے یہیں پرورش پائی، شادی کی، اور اپنی ایک بیکری بھی کھولی۔لیکن ۲؍ مئی۲۰۲۵ء کو ان کی زندگی بدل گئی — جب گاؤں کے اَنّاپورنا مندر کی بےحرمتی کے الزام میں ایک مسلم لڑکے کو پکڑا گیا۔راشد نے ’اِنڈی جرنل‘ سے بات چیت میں کہا کہ :’’دو ماہ سے زیادہ وقت ہوچکا،ہمیں بیکری بند کرنے کو کہا گیا، دھمکیاں دی گئیں کہ گاؤں چھوڑ دو۔ ہمیں `باہر ی مسلمان کہا جاتا ہے، جبکہ گاؤں میں پہلے سے موجود کچھ مسلم خاندانوں کو `مقامی مسلمان کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کی کئی نسلیں یہاں رہی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہم باہر سے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘
مسلم مخالف ماحول کب سے بنا؟
۲؍ مئی کو ایک نابالغ مسلم لڑکا (جو پَوڈ میں پیدا ہوا لیکن اسکی فیملی بہار سے تعلق رکھتی ہے) پر اَنّاپورنا مندر میں مورتی کی بےحرمتی کا الزام لگا ہے۔ لڑکے کو پولیس نے گرفتار کر لیا، لیکن اس کے بعد کچھ ہندو شدت پسند تنظیموں(سکل ہندو سماج وغیرہ) نے گاؤں میں بند منایا اور ریلی نکالی۔مسلم خاندانوں کا الزام ہے کہ اسکے بعد نوجوانوں کے گروہ نے گاؤں میں مسلم کاروباریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، انہیں کاروبار بند کرنے اور گاؤں چھوڑنے کی دھمکیاں دیں۔ ماجد (نام تبدیل) نے کہا: ’’میرا خاندان یہاں۶۰؍ سال سے رہ رہا ہے، لیکن اب مجھے بھی `’باہر والا‘ کہا جاتا ہے۔ میں باہر نکلتا ہوں تو کوئی نہ کوئی کہہ دیتا ہے کہ ابھی تک گاؤں کیوں نہیں چھوڑا؟ ہمیں مسجدمیں بھی جانے نہیں دیا جارہا ہے، صرف مقامی مسلمانوں کو اجازت ہے۔ ہمیں (جمعہ کی ) نماز کیلئے پونے جانا پڑتا ہے۔‘‘
پی یو سی ایل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ
پیپلز یونین فار سول لبرٹیز(پی یو سی ایل) کی ایک ٹیم نے حال ہی میں پَوڈ گاؤں کا دورہ کیا اور حقائق پر مبنی رپورٹ تیار کی۔ جس میں انکشاف کیا کہ چند مقامی افراد اور باہر سے آئے کچھ لوگ آس پاس کے گاؤں میں گھوم گھوم کر لوگوں کو دھمکا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو نہ روزگار دیا جائے، نہ انکے ساتھ کاروبار کیا جائے، نہ ہی انہیں کرائے پر گھر یا دکان دی جائے۔پی یو سی ایل کے مطابق:’’ہمیں معلومات ملی ہے کہ کئی مسلمان دکانداروں کی بیکریاں، کباڑ کی دکانیں، نائی کی دکانیں اور گوشت کی دکانیں زبردستی بند کروا دی گئی ہیں۔‘‘ مزید کہا گیا:’’مسلمانوں کی بیکریوں میں کام کرنے والے۱۰۰؍ سے زائد ملازمین — جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں — اور اب وہ بے روزگار ہو چکے۔‘‘
خاندانوں کی بے دخلی اور مشکلات
پی یو سی ایل کی رپورٹ کے مطابق، ۳۵۰؍ مسلم خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سے بیشتر نے گاؤں چھوڑ دیا ہے۔ کچھ نے پونے میں پناہ لی، کچھ لوناؤلا چلے گئے، اور کئی واپس اتر پردیش اپنے آبائی گھروں کو لوٹ گئے۔ سمیر (نام تبدیل) نے بتایا:’’میں ۱۸؍ سال سے پؤڈ میں رہ رہا ہوں۔ میرے بچے یہاں پیدا ہوئے۔ میں ایک بیکری میں کام کرتا تھا، جو اب بند ہے۔ مجھے اپنے ۳؍ بچوں کا اسکول سے داخلہ منسوخ کرنا پڑا کیونکہ ہم واپس گاؤں جا ہی نہیں سکتے۔ پونے میں ان کا داخلہ کرانے کے پیسے نہیں ہیں۔‘‘ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے، کیونکہ وہ بھی سماجی بائیکاٹ کے خوف میں ہیں۔راشد نے بتایا:’’میری ساس پونے کی رہنے والی ہیں، اور ان کا خاندان مقامی مسلمانوں میں شمار ہوتا ہے، لیکن وہ بھی ڈر کے مارے ہمارا ساتھ نہیں دے پا رہے ہیں، کیونکہ وہ بھی نشانے پر آ سکتے ہیں۔ ‘‘
مسلم کاروباریوں کا مکمل بائیکاٹ
راشد مزید کہتے ہیں:’’میرے بھائی دودھ کا کاروبار کرتے تھے، روزانہ۱۲۰۰؍سے ۱۳۰۰؍ لیٹر دودھ فروخت ہوتا تھا۔ لیکن اس واقعے کے بعد گاہکوں نے دودھ لینا بند کر دیا۔ ایک ہندو دکاندار نے بتایا کہ اس پر بھی دباؤ ہے کہ اگر مسلمانوں سے لین دین جاری رکھا تو اس کا بھی بائیکاٹ ہوگا۔‘‘ماجد نے کہا کہ’’گاؤں میں اب کسی بھی مسلم مزدور یا روزانہ اجرت پر کام کرنے والے کو کام نہیں مل رہا۔‘‘ پی یو سی ایل نے سوال قائم کیا کہ:’’کیا ایک لڑکے کے مبینہ جرم کی سزا پورے مسلم سماج کو دی جا سکتی ہے؟ کیا گاؤں میں رہنے والے لوگوں کو بیک وقت روزگار، تعلیم، عبادت اور زندگی سے محروم کیا جا سکتا ہے؟‘‘ راشد نے بتایا:’’واقعے کے چند دن بعد میری بیوی سبزی لینے گئی۔ کچھ لوگوں نے پوچھا کہ وہ ابھی تک گاؤں میں کیوں ہے؟ کئی مرد جمع ہو گئے۔ وہ اتنی خوفزدہ ہو گئی کہ اب اکیلے باہر نہیں نکلتی۔ ہم سب اپنی جانوں کیلئے ڈرے ہوئے ہیں۔‘‘
پَوڈ گرام پنچایت کی متنازع قرارداد
انّا پورنا دیوی کی مورتی کی بے حرمتی کے اگلے ہی دن، گرام پنچایت نے قرارداد پاس کی کہ باہر کے مسلمانوں کو گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پی یو سی ایل نے یہ بھی دیکھا کہ پَوڈ، پیرنگوٹ اور اطراف کے گاؤں میں بینرز/بورڈز لگائے گئے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’’غیر مقامی مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے۔‘‘ پی یو سی ایل کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ بورڈز دو ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد حال ہی میں ہٹائے گئے، لیکن تفریق اور بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ پی یو سی ایل کے ملند چمپانرکر نے کہا:’’ دہشت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، اور ہمیں خدشہ ہے کہ یہ نفرت انگیز ماڈل دوسرے گاؤں میں بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ ہم نے ضلع ایس پی سے اس معاملے میں کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘