Inquilab Logo

پچیس سال قبل بوسنیا قتل عام میں مارے گئے ۸؍ ہزار مسلمانوں کی تدفین کا سلسلہ آج بھی جاری

Updated: July 12, 2020, 9:27 AM IST | Agency | Bosnia

بوسنیا کے مشرقی شہر سربرینکا میں سرب افواج نے۱۹۹۵ء میں صرف ۱۰؍ دن میں ۸؍ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ نسل کشی کی اس بدترین واردات کو اب ۲۵؍ سال گزر چکے ہیں لیکن مقتولین کی شناخت اور تدفین اب بھی جاری ہے

Bosnia Muslims - Pic : PTI
جن لوگوں کی شناخت ہو چکی ، ان کی نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے بوسنیا کے مسلمان( تصویر: ایجنسی

بوسنیا کے مشرقی شہر سربرینکا میں  سرب افواج نے۱۹۹۵ء میں صرف ۱۰؍ دن میں ۸؍ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ نسل کشی کی اس بدترین واردات کو اب ۲۵؍ سال  گزر چکے ہیں لیکن مقتولین کی شناخت اور تدفین اب بھی جاری ہے۔سنیچر کو ان ۸؍ مردوں اور لڑکوں کو شہر کے باہر واقع قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا جن کی حال ہی میں شناخت ہوئی ہے۔ ان کی قبروں کے کتبے پر وہی مہینہ اور سال لکھا ہوگا جو ہزاروں دوسری قبروں کے کتبوں پر لکھا ہوا ہے۔
 یہ قتل عام دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا بدترین واقعہ تھا جس میں قاتلوں نے اپنا جرم چھپانے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے مقتولین کو پہلے اجتماعی قبروں میں دفن کیا اور کچھ عرصے بعد بلڈوزر سے باقیات نکال کر مختلف قبرستانوں میں بکھیر دیں تاکہ انھیں شناخت نہ کیا جا سکے۔  واضح رہے کہ بوسنیا   پہلے یوگوسلاویہ کا حصہ تھا لیکن  یوگو سلاویہ ٹوٹنے کے بعد ۱۹۹۲ء میں بوسنیا نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ ۱۹۹۳ء میں اقوام متحدہ نے اسے تسلیم بھی کرلیا لیکن    وہاں کے سرب باشندوں نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا۔ کیونکہ بوسنیا میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔  اس کے بعد وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔  اس خانہ جنگی کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ کی فوج بھی وہاںموجود تھی جو دراصل ڈچ آرمی تھی۔
   لیکن ۶؍ جولائی ۱۹۹۵ء کو  سرب فوج نے مسلم اکثریتی علاقے  سربرینکا کا محاصرہ کر لیا اور ۵؍ دنوں کے اندر اس پر قبضہ کرلیا۔  اس کے بعد مسلم باشندوں کو نکال کر ان  پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس حملے سے بچنے کیلئے جب مسلمانوں نے بسوں میں بیٹھ کر فرار ہونے کی کوشش کی تو  انہیں ان بسوں  سے نکالا گیا ، اور مردوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔  اقوام متحدہ کی فوج جو وہاں خانہ جنگی کو روکنے کی غرض سے آئی تھی اس نے ہتھیار ڈال دئیے  اور خاموش تماشائی بنی رہی۔ حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپ  میںموجود ۵؍ ہزار مسلمانوں کو  سرب فوج کے حوالے کر دیا  تاکہ وہ انہیں قتل کر سکیں۔  یہ قتل وغارت گری ۱۰؍ دنوں تک جاری رہی جس میں کل ۸؍ ہزار لوگ مارے گئے۔ 
  ۱۹۹۶ء میں مقامی اور بین الاقوامی سائنس دانوں نے وہ کام شروع کیا جسے دنیا کا سب سے بڑا فارینسک معمہ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اجتماعی قبروں کو کھول کر باقیات کے ڈی این اے کرنا شروع کئے اور ان کے رشتے داروں سے سلسلہ ملانے لگے۔سال ۱۹۹۶ءمیں انٹرنیشنل کمیشن آن مسنگ پرسنس اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے کہنے پر قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد یوگوسلاویہ کی خانہ جنگی میں لاپتہ ہوجانے وا لے ۴۰؍ہزار افراد کا سراغ لگانا تھا۔ ان کی اکثریت کا تعلق بوسنیا سے تھا۔
  ۲۰۱۴ء میں کمیشن عالمی تنظیم بن گیا اور صدر دفتر دی ہیگ منتقل ہوگیا۔ لیکن اس سے پہلے وہ بلقان جنگوں  کے  ۷۰؍ فیصد متاثرین کا سراغ لگاچکا تھا۔ ان میں سربرینکا کے ۸؍ہزار میں سے ۷؍ ہزار مقتولین شامل ہیں۔جب کسی شخص کی باقیات کی شناخت ہوجاتی ہے تو انھیں اس کے رشتے داروں کے حوالے کردیا جاتا ہے اور وہ انھیںسربرینکا کے قبرستان میں سپرد خاک کرتے ہیں۔ ۱۹۹۵ء میںیہ قتل عام ۱۱؍جولائی کو شروع ہوا تھا۔ اب ہر سال اس تاریخ کو مقتولین کے لواحقین حال میں شناخت کئے گئے افراد کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں۔ چونکہ قتل کئےگئے بیشتر افراد مرد اور لڑکے تھے، اس لئے غم منانے والوں میں بیشتر خواتین ہوتی ہیں جو ان  مقتولین کی مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں ہوتی ہیں!
 عام حالات میں ۱۱؍جولائی کےتعزیتی پروگرام میں شرکت کیلئے مختلف  ممالک سے ہزاروں افراد آتے تھے لیکن اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے قبرستان میں  صرف مقتولین کے چند رشتے داروں کو آنے کی اجازت دی گئی  تھی۔ سربرینکا میموریل سینٹر کے مطابق اس موقع پر تقریب سے کئی مقررین ویڈیو لنک پر خطاب کیا۔ دی ہیگ میں اقوام متحدہ کے جنگی جرائم سے متعلق ٹربیونل اور بلقان کی عدالتوں نے نسل کشی کے اس واقعے کے بعد تقریباً ۵۰؍ سربوں کو سزا سنائی تھی جن میں ان کے سویلین اور فوجی لیڈر شامل تھے۔ ۲۰۱۹ء میں اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں اس واقعے کو خانہ جنگی کے بجائے قتل عام قرار دیا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK