پلاسٹک سے ڈھکنے اور احتیاطی تدابیر کے باوجود قبروں میںپانی جمع ہوجاتا ہے۔ناریل واڑی اوردیگر قبرستانوں میں جس حصے میں زیادہ پانی جمع ہوتا ہے، وہاں مقررہ مدت کے بعد بھی احتیاطاً قبریں نہیں کھولی جاتی ہیں
EPAPER
Updated: August 22, 2025, 11:01 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
پلاسٹک سے ڈھکنے اور احتیاطی تدابیر کے باوجود قبروں میںپانی جمع ہوجاتا ہے۔ناریل واڑی اوردیگر قبرستانوں میں جس حصے میں زیادہ پانی جمع ہوتا ہے، وہاں مقررہ مدت کے بعد بھی احتیاطاً قبریں نہیں کھولی جاتی ہیں
بارش ا ور پانی جمع ہونے کے سبب میت کی تدفین میںدشواری ،ایک بڑا مسئلہ ہے۔پلاسٹک سے ڈھکنے اور احتیاطی تدابیر کے باوجود قبروں میںپانی جمع ہوجاتا ہے۔ ناریل واڑی ،بڑا قبرستان ، دیونار اور رفیع نگر وغیرہ قبرستانوں کے جس حصے میں زیادہ پانی جمع ہوتا ہے، وہاں وقت مقررہ مدت کے بعد بھی احتیاطاً قبریں نہیں کھولی جاتی ہیں۔ کچھ قبرستانوں میں پانی کی نکاسی کیلئے منصوبہ زیر غور ہے۔
بعض قبرستانوں میںپلاسٹک اورتختے وغیرہ لگاکر پہلے سے تیار قبروں کوڈھکا جاتا ہے، اس کےباوجود پانی جمع ہوجاتا ہے،جسے میت کوقبر میں رکھنے سے قبل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہےپھر بھی کافی نمی باقی رہ جاتی ہے اور مجبوراًیوں ہی میت کوسپردِ لحد کردیا جاتا ہے ۔
ناریل واڑی قبرستان میںانتظامیہ کمیٹی کے رکن یٰسین چشتی سے نمائندۂ انقلاب کے استفسار کر نے پر انہوں نےبتایاکہ ’’ بارش میں میت کی تدفین کا مسئلہ رہتا ہے۔کوشش کے باوجود قبروں میںپانی آجاتا ہے ۔ ناریل واڑی میں خاص طور پرانجیرواڑی (مجگاؤں کی سمت ) کی جانب والا حصہ جسے ۷؍ نمبر لین کہا جاتاہے، وہ روڈ سے تقریباً دو تا ڈھائی فٹ نیچا ہے جس سے پانی قبرستان کے مذکورہ حصہ میںآتا ہے ۔اسی لئے اُس حصے کوبارش میں نہیںکھولا جاتا ہے۔ اسی طرح ۸؍نمبر لین کی مٹی کافی چکنی ہے ،یہاں بھی میت مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود مٹی میں نہیںملتی ہے اس لئے اس حصے کوبھی نہیںکھولا جاتا ہے، چہ جائیکہ ان حصوں میں کسی کا اوٹا نہ ہو۔‘‘
ا نہوں نے مزید کہا کہ ’’ پیشگی تیار کی جانے والی قبروں کو پلاسٹک اورتختے وغیرہ سے ڈھکا جاتا ہے لیکن مسلسل بارش کے سبب پانی آجاتا ہے اورمٹی گیلی ہوجاتی ہے۔ کچھ اہم شخصیات کے یہاںکسی کےانتقال پراضافی نظم جیسے لکڑی کا برادا وغیرہ منگایا جاتاہےلیکن ہرمیت کے لئے یہ ممکن نہیںہوتا ، اس لئے ان ہی حالات میںدفن کرنا پڑتاہے ۔‘‘
دیونار قبرستان کے ٹرسٹی عبدالرحمٰن عرف منّا نے بتایاکہ’’ بارش میںکافی مشکل ہوتی ہےلیکن مجبوری ہے، کچھ نہیںکیا جاسکتا ۔ان ہی حالات میںجیسے تیسے میت دفن کرنی پڑتی ہے۔ میت کوقبر میںرکھنے سے قبل جس قدر ممکن ہوتا ہے، پانی نکالا جاتا ہے ورنہ اسی حالت میںدفن کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘
رفیع نگر (گوونڈی) قبرستا ن کے ذمہ دار مشتاق شیخ نے بتایاکہ ’’ بارش میںقبرستانوں کے حالات ناقابل بیان ہیں۔ خود میرے بھائی کی بیوی کا چند دن قبل انتقال ہوگیاتھا۔ قبرسے پانی نکالاتو گیا پھر بھی کیچڑتھا اس لئے مجبوراً ان ہی کیفیت میںتدفین کرنی پڑی ۔ ‘‘ ان کے مطابق ’’رفیع نگرقبرستان کا معاملہ ایسا ہےکہ چاروں طرف سے آرسی سی دیوار ہے ، درمیان میںبھی اسی طرح سے لائن بنائی گئی ہے، اس لئے پانی کی نکاسی کا کوئی نظم ہی نہیںہے، زمین میں پانی جذب ہوتا ہے ا ورتیز بارش میںقبر کھودنے کے وقت پانی نکلنے لگتاہے ۔ اس کاحل یہ سوچا گیا ہے کہ چھوٹا موٹر لایا جائے اوربارش میںمیت کوقبر میںاتارنے سے پہلے اسے چلاکرپانی باہرنکالا جائے پھر تدفین کی جائے۔ اس کے علاوہ قبرستا ن کے اندر مختلف حصے میںپائپ ڈالنا ہے تاکہ اس کے ذریعے بھی پانی کی نکاسی ہوتی رہے ، اس سے قبروں میںپانی جمع ہونےکا اندیشہ کم ہوجائے گا۔‘‘
بڑا قبرستان ، مرین لائنس کے ٹرسٹی شعیب خطیب نے بتایاکہ’’ بڑاقبرستان کا معاملہ دیگر قبرستانو ں سے الگ ہے۔ یہ حصہ ساحل کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں کی مٹی ریتیلی ہے جس سے قبروں میں پانی جمع نہیںہوتا ہے۔ البتہ قبرستان میںداخل ہوتے ہی دائیں جانب جہاں قبرستان سے ملحق چالیاں بنی ہوئی ہیں، وہاں پانی جمع ہوتا ہے ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ بارش کے ۴؍ماہ وہاں تدفین روک دی جاتی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ بارش میںمٹی بہہ جانے کا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ابھی ایک دن قبل ہی ۱۷؍ گاڑی مٹی منگوائی گئی ہے۔ حسبِ ضرورت قبرستان کے الگ الگ حصوں میں اسے ڈال دیا جاتا ہے تاکہ بھرنی ہوجائے ۔‘‘