مہنگے محسوس ہونے پرگاہک جانورخریدنے سے ہچکچارہے ہیں جبکہ تاجروں کا دعویٰ ہے کہ قربانی کے جانور عام جانوروں کے مقابلے مہنگے ہوتے ہیں۔ بکروں کی آن لائن خریداری کا بھی رجحان
EPAPER
Updated: June 13, 2024, 11:12 AM IST | Saadat Khan and Saeed Ahmed Khan and Iqbal Ansari | Mumbai
مہنگے محسوس ہونے پرگاہک جانورخریدنے سے ہچکچارہے ہیں جبکہ تاجروں کا دعویٰ ہے کہ قربانی کے جانور عام جانوروں کے مقابلے مہنگے ہوتے ہیں۔ بکروں کی آن لائن خریداری کا بھی رجحان
عیدالاضحی جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے ، شہر و مضافات کے مسلم علاقے میں بکروں کی چھوٹی چھوٹی عارضی منڈیوں میںجانور لانے کا سلسلہ بھی جاری ہے مگر خریدار کم ہونے کے سبب تاجروں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
گاہکو ں اورتاجروں کی زبانی
آصف سہیل (کرلا)نے بتایاکہ’’ کرلا میںمختلف جگہوں جیسے کرلا ڈپو سے متصل ،ایل آئی جی کالونی ، شیواجی کوپے منڈل اوردیگرجگہوں پر بکروں کی منڈی لگائی گئی ہے ۔ یہاں الگ الگ دام ۴۸۰، ۴۹۰، ۵۰۰، ۵۵۰؍ اور۶۰۰؍ تا ۶۵۰؍ روپے فی کلو کےحساب سے بکرے فروخت ہورہے ہیں۔ دام میںفرق بکروں کی نسل کی مناسبت سے ہے ۔‘‘ حاجی ضمیراحمد (باندرہ) نے بتایاکہ ’’ باندرہ ہی نہیں سانتاکروز،کھار اوردیگرعلاقوں میں بھی بکرے لائے گئے ہیں اور فروخت ہورہے ہیںلیکن اس میںتیزی نہیںدکھائی دے رہی ہے کیونکہ بھاؤ زیادہ ہے۔ہوسکتا ہےکہ بقرعید سے دو تین قبل تیزی آئے۔‘‘ مالونی (ملاڈ مغرب) میںگیٹ نمبر۷؍اورمہاڈا کالونی میںبڑی تعداد میںبکرے لائے گئے ہیں۔ یہاں ایک گاہک محمودخان نےبتایاکہ ’’ ابھی بکرے کافی مہنگے دام پرفروخت ہورہے ہیں۔‘‘انہیں مناسب وزن والاجو بکرا پسند آیا، اس کی قیمت ۳۵؍ہزارروپے سن کر وہ باڑے سے لوٹ گئے ۔ ایک اور گاہک مولانا محمداحمدخان نے بتایاکہ’’ ایسا لگتا ہےکہ تاجر ابھی من مانے انداز میںدام بتا رہے ہیں اس لئے لگتاہے کہ مالونی کے بجائے اب دیونار ہی جاناہوگا۔‘‘ عبدالرحمٰن انصاری نے بتایا کہ ’’ گیٹ نمبر۷؍ پر ۵۰۰؍روپے کلو کے حساب سے بکرا فروخت کیاجارہا ہے ۔ اگر ۵۰؍ کلو کا بکرا ہے تو۲۵؍ہزارروپے ہوتے ہیں،ایسے میںیہ کافی مہنگا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
مشتاق احمدنامی تاجرنے بتایاکہ ’’ ہم لوگ اجمیر اور گجرات وغیرہ سےبکرے لاتے ہیں اورمقصد دو پیسہ کمانا ہوتا ہے ۔ اگرہمیںکچھ منافع نہیںہوگا توکیسے فروخت کریں گے۔‘‘ مشتاق نے بڑی دلچسپ بات کہی کہ’’ تاجر یہ محسوس کرتا کہ میں نے سستے دام میںبکرا فروخت کردیا جبکہ گاہک یہ سمجھتا ہے کہ مجھےمہنگا جانور ملا ہے ۔حالانکہ قربانی کے جانور عام جانور وں کےمقابلے مہنگے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
ایک دوسرے تاجرغلام دستگیرنے بتایاکہ ’’ ممبئی لانے کےبعد اورزیادہ خرچ بڑھ جاتا ہے اور جب تک بکرا فروخت نہیںہوتا ،روزانہ خرچ برداشت کرنا ہوتا ہے اس لئے قربانی کا جانور مہنگا ہوتا ہے۔‘‘
گاہکوں کی مالی دشواریوں کا اثر بکروںکےکاروباربھی پڑا
بیلاسس روڈ پر واقع آرچڈ ٹاور کے قریب بکروں کا کاروبار کرنے والے ناصر احمد انصاری نے اس نمائندے کو بتایا کہ ’’ عید قرباں کے علاوہ سال بھر بکروں کا کاروبار کرتا ہوں ۔ عیدالاضحی کے موقع پر ۱۸؍ سال سےدکان لگا رہا ہوں لیکن ایسی مندی پہلی مرتبہ دیکھی ہے ۔ اس سے بہتر تو کورونا اور لاک ڈائون میں بکروں کی فروخت ہوئی تھی لیکن امسال بہت خراب کاروبار ہے ۔ میرے پاس مختلف قسم کے وزن والے بکرے ۵۰۰؍ تا۷۰۰؍ روپے کلو کے حساب سے دستیاب ے لیکن خریدار نہیں آرہے ہیں ۔ گزشتہ ۲۰۔۲۲؍ دن میں صرف ۲۰؍ فیصد بکرے فروخت ہوئے ہیں ۔ اُمید ہے کہ آئندہ ۴؍ دن میں بقیہ بکرے فروخت ہو جائیں گے ۔‘‘
نصیر پٹھان ہال ، چور بازار کے المدینہ گوٹ فارم کے مالک محمد فہیم کے مطابق ’’ جیسی اُمید تھی، ویسا کاروبار تو نہیں ہوسکا ، اس کے باوجود میں مطمئن ہوں ۔ میں نے سبھی قسم کے وزن والے مثلاً ۴۰؍ تا ۱۰۰؍ کلو والے بکروں کی فی کلو قیمت ۵۷۵؍ روپے رکھی تھی جس کی وجہ سے بکرے فروخت کرنے میں آسانی ہوئی ۔ ڈیڑھ سو بکروں میں سے تقریباً ۹۰؍ بکرے فروخت ہوچکے ہیں ۔ بقیہ بکرے بھی آئندہ ۴؍ دن میں فروخت ہوجائیں گے لیکن جس طرح کے حالات ہیں ،ایسے میں نئے بکرے لانے کا فیصلہ صحیح نہیں ہوگا ۔ مالی دشواری سے کاروبار متاثر ہے،یہ یقین ہوگیا ہے ۔‘‘
ممبرا کے تاجر بھی مایوس
عید الاضحی کے موقع پر سال گزشتہ کی طرح امسال بھی ممبرا میں چند مقامات پر عارضی بکرا منڈی لگائی گئی ہے ۔ متل میں بھی ممبرا کوسہ بکرا منڈی لگائی گئی ہے جہاں ریاست کے مختلف اضلاع کے ساتھ ساتھ بیرون ریاست سے بھی بکروں فروخت کیلئے لائے گئے ہیں ۔ یہاں پربکروں کی خوبصورتی اور جسامت کے اعتبارسے تو قیمت لگائی جارہی ہے ساتھ ہی ۵۵۰؍ روپے فی کلو کےحساب سے بھی بکرے فروخت کئے جا رہے ہیں۔
اسی طرح کی چھوٹی بکرا منڈی شملہ پارک علاقے میں اور وائی جنکشن پر نئے فلائی اوور کے نیچے بھی قائم کی گئی ہے۔ شہری اپنی سہولت کے حساب سے ان منڈیوں میں جارہے ہیں اور بکرے خرید رہے ہیں ۔ تاجروںکی مطابق جتنی امید تھی اس سے کم خریدارآرہے ہیں۔