Inquilab Logo

ء۲۰۳۰ء تک چین دنیا کا سب سے امیر ملک بن جائے گا

Updated: January 06, 2022, 11:47 AM IST | Agency | London

سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین پیدوار میں اضافے سے زیادہ ٹیکنالوجی پر توجہ دے رہا ہے ، نیز کئی اہم اشیا اندرون ملک پیدا کر رہا ہے جواس کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا

China`s focus is on becoming self-sufficient.Picture:INN
چین کی پوری توجہ اپنے آپ کو خود کفیل بنانے پر مرکوز ہے۔ تصویر: آئی این این

 برطانیہ میں `سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ( سی ای بی آر) کی پیش گوئی ہے کہ ۲۰۲۵ء تک چین کی سالانہ معاشی پیداوار کی شرح  ۷ء۴؍ فیصد رہنے کا امکان ہے اور پھر ۲۰۳۰ء میں یہ ۷ء۵؍سالانہ ہوجائے گی۔ اس پیش گوئی میں مزید کہا گیا ہے کہ چین کی معیشت جو اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۲۰۳۰ءمیں دنیا کی سب سے بڑ ی معیشت  بن جائے گی   یعنی امریکہ سے آگے نکل جائے گی۔ یہی پیش گوئی ایک اور مالیاتی کمپنی `ایولر ہرمز نے بھی کی ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی میں چینی لیڈروں نے فیکٹریوں میں تیار کردہ روایتی برآمدی اشیاء کے بجائے اندرونِ ملک بننے والی اشیاء پر انحصار کرنے پر زیادہ زور دیا۔ امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازع اور سال ۲۰۲۰ءمیں کورونا کی وجہ سے کام بند ہونے کے باعث فیکٹریوں میں اشیاء کی تیاری پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔اسی کے پیشِ نظر کثیر الملکی بیرونی کمپنیاں چین سے باہر ویتنام جیسے ملکوں میں اپنے مال کی تیاری کو ترجیح دے رہی ہیں تاکہ اجرت اور ماحولیاتی تبدیلی کے ضابطوں پر عمل کرنے سے بڑھنے والی لاگت سے بچا جاسکے۔ پھر ۲۰۲۰ءمیں کوروناکے لاک ڈاؤن میں فیکٹریاں بند ہونے کی صورتِ حال دوبارہ پیدا ہونے کا امکان بھی کم نظر آتا ہے۔
سرمایہ کاری پر کنٹرول
 چین کی معیشت گزشتہ ۲۰؍سال  سے تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ تاہم، اس کے بہت سے شعبوں میں بہت حد تک سرکاری عمل دخل رہا ہے جیسا کہ ۲۰۲۱ءمیں انٹرنیٹ کے شعبے میں اور اب اقتصادی ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ بعض کلیدی شعبوں پر سرکاری کنٹرول میں مزید اضافہ ہوگا۔ڈینی روئے، ہونولولومیں `ایسٹ ویسٹ سینٹر نامی تھنک ٹینک میں سینئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’بیجنگ کے پاس فنڈز بھی ہیں اور اندرونِ ملک بلا رکاوٹ سیاسی طاقت بھی جس کی مدد سے چین کے وسیع سرکاری خزانے کو ایسی سرمایہ کاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو چینی قیادت کے قومی اور عالمی منصوبوں میں مدد دے سکے۔
  ماہرین  کہتے ہیں کہ امکان ہے کہ چین پیداوار میں اضافے کیلئے ٹیکنالوجی کو ترجیح دے   خاص طور پر ہارڈوئیرز کو، کیونکہ ان میں مسلسل تجدید کی ضرورت نہیں ہوتی۔زینن کیپرون شنگھائی میں کیپرونیشیا نامی کمپنی کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے شعبے میں حکومتی مداخلت، نیم مواصلاتی اور زیریں ڈھانچے سے متعلق سافٹ وئیر کی توسیع پر اثر انداز نہیں ہوگی۔اگر چین ٹیکنالوجی میں خودمختار  اور ٹیکنالوجی کی مصنوعات اور سروس کی فروخت کے قابل ہو جاتا ہے تو یہ اس کی معیشت کیلئے بہت فائدہ مند ہو گا، کیونکہ امریکی معاشی پیداوار میں یہی کلیدی عنصر ہے۔‘‘تاہم، کیپرون کہتے ہیں،’’امریکی معیشت ۲۰۳۰ءتک استحکام کے ساتھ مسلسل ترقی کرتی رہے گی۔‘‘
صارفین اور قوتِ خرید
 میکنزی اینڈ کمپنی نے ۲۰۲۱ءکی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ۲۰۲۱ء سے پہلے جب چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی تنازعے نے دنیا میں چینی اشیاء کی تجارت کم کر دی تھی تو چینی پیداوار کا بڑا انحصار اندرونِ ملک خرچ کی گئی رقوم پر تھا۔ اور اسی دوران نہ صرف ترسیلات مستحکم ہوئیں بلکہ مقامی سطح پر جدت میں بھی اضافہ ہوا۔ چینی آبادی میں امریکہ کی نسبت ۵ء۳؍گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ صارفین کے خرچ کرنے کا یہ رجحان بھی جاری رہے گا۔ مگر عموماً امریکی صارف زیادہ دولتمند ہیں۔آئی ایچ ایس مارکیٹ کے ایشیا۔بحر الکاہل کیلئے چیف اکانومسٹ راجیو بسواس کہتے ہیں کہ گزشتہ ۵؍ سال  میں چین کی اندرونِ ملک اشیاء کی کھپت اس کی معاشی ترقی کا اہم حصہ رہی ہے۔ اور ملکی صارفین کی خرید کی استطاعت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
چینی معیشت امریکہ سے بڑھ گئی تو کیا ہوگا؟
  کہا جا رہا ہے کہ  دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل ہونا بذاتِ خود دوسروں پر کوئی سبقت دلانے کا باعث نہیں ہوتا لیکن جو ملک چینی معیشت پر انحصار کرتے ہیں وہ اس کو ضرور دیکھیں گے۔سی ای بی آر کے میک ولیمز نے کہا، ’’اس پر کوئی سونے کا تمغہ یا کوئی اعزاز نہیں ملتا۔ مگر جب آپ کی جیب میں پیسے زیادہ ہوں تو دوسروں پر اثر ڈالنے کی آپ کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور یہ صلاحیت چین بھی حاصل کر سکتا ہے۔‘‘وہ کہتے ہیں چین۹؍ برس پہلے شروع کئے گئے اپنے `بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹیو نامی منصوبے کو مزید آگے بڑھا سکتا ہے۔ یہ منصوبہ زیریں ڈھانچے اور سرمایہ کاری کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقہ میں زمینی اور سمندری تجارتی راستوں سے متعلق ہے۔ بیجنگ  اپنے ملک کی معیشت کو دیگر ممالک کے ساتھ تنازعوں کے تقابل میں دیکھ رہا ہے۔ چین کا جنوب مشرقی ایشیا کے چار ممالک کے ساتھ بحری علاقے پر اختیار کا تنازعہ چل رہا ہے، جاپان کے ساتھ متعدد جزائر کا قضیہ بھی موجود ہے اور ۲۰۱۷ء سے ہندوستانکے ساتھ بھی علاقائی تنازع چل رہا ہے۔  چین کو ان تنازعات کو اپنے حق میں حل کروانا ہوگا تبھی وہ طاقتور ملک کا مقام حاصل کر پائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK