Inquilab Logo

قنوج سے الیکشن لڑ کر اکھلیش صرف قنوج نہیں پورے یادو بیلٹ کو جیت لینا چاہتے ہیں

Updated: May 04, 2024, 9:17 AM IST | Asim Jalal | Mumbai

۲۰۱۹ء  میں بڑی مشکل سے ۱۲؍ ہزار ووٹوں سے ڈمپل یادو کو ہرانے والے بی جےپی کے سبرت پاٹھک کی امیدیں  بی ایس پی کے مسلم امیدوار سے وابستہ ہیں۔

Akhilesh Yadav. Photo: INN
اکھلیش یادو ۔ تصویر : آئی این این

قنوج کی پارلیمانی سیٹ کیلئے اپنے بھتیجے اور لالو پرساد یادو کے داماد تیج پرتاپ سنگھ کے نام کا اعلان کر دینے کے بعد بالکل آخری وقت میں انہیں ہٹاکر خود الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرکے اکھلیش یادو نے پورے یوپی کے انتخابی ماحول کو گرمادیا ہے۔ سماجوادی پارٹی کو امید ہے کہ اس فیصلے سے قنوج سمیت یادو بیلٹ کے ۸؍  اضلاع  مین پوری، اٹاوہ، ایٹہ، کاس گنج، فیروز آباد،اوریہ اور فرخ آباد میں  ’انڈیا‘ کیلئے امکانات  بہتر ہوسکتے ہیں۔  یہ ۸؍ اضلاع  ۶؍ پارلیمانی حلقوں مین پوری، اٹاوہ، ایٹہ، فیروز آباد، قنوج اور فرخ آباد   پر مشتمل ہیں۔ بتایا جارہاہے کہ اکھلیش نے یہاں سے خود الیکشن لڑنے کافیصلہپارٹی کارکنوں کی خواہش کے ساتھ  ہی ’انڈیا‘ اتحاد کے مشورہ کے بعد کیا ہے جس کا مقصد پوری ریاست میں انڈیا اتحاد کے کارکنوں  میں جوش بھر دینا ہے۔  
 قنوج میں  چوتھے مرحلے میں  ۱۳؍ مئی کو پولنگ ہوگی جس کیلئے انتخابی مہم اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ حالانکہ یہاں سے کل ۱۵؍ امیدوار میدان میں ہیں مگراکھلیش یادو کا اصل مقابلہ  بی جےپی کے امیدوار سبرت پاٹھک سے ہوگا جنہوں نے سماجوادی پارٹی کے اس گڑھ  میں  ۲۰۱۹ء میں  سیندھ لگانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔  ان کے علاوہ بی ایس پی کے امیدوار محمد عمران بن ظفر بھی پسماندہ طبقات اور سیکولر ووٹوں کے دعویدار ہیں۔ اس کی وجہ سےاگر اقلیتی ووٹوں کی تقسیم سے اکھلیش کونقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے  تو وہیں   ای وی ایم پر ’ہاتھی‘  کے نشان کی موجودگی سے بی جےپی کیلئے اُن ووٹوں سے ہاتھ  دھو بیٹھنے کا خطرہ ہے  جو بصورت دیگر اس کے کھاتے میں آتے۔

یہ بھی پڑھئے: مودی نے اُلٹا اپوزیشن اتحاد پر ہی ملک کا دستور بدلنے کی سازش کا الزام لگا دیا


اکھلیش یادو کے میدان میں اتر جانے سے بی جےپی کے خیمے میں کھلبلی مچ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قنوج یادو خاندان کا گڑھ ہے۔ اس پارلیمانی حلقے سے سماجوادی نظریات  کا خاص تعلق ہے جبکہ  اکھلیش یادو کا تعلق بھی کم گہرا نہیں ہے۔   ۱۹۶۷ء میں  معرض وجود  میں آنے والے اس  حلقے کے ووٹروں نے پارلیمنٹ میں  اپنا پہلا نمائندہ رام منوہر لوہیا جیسے سماجوادی نظریات کے حامل قدآور لیڈر کی شکل میں بھیجا۔  قنوج کی  پارلیمانی سیٹ سے ملائم سنگھ یادو پریوار کا تعلق ۱۹۹۹ء میں اس وقت استوار ہوا جب ملائم سنگھ یادو یہاں سے منتخب ہوئے۔  بعد میں  ۲۰۰۰ء  میں جب  ضمنی الیکشن کی نوبت آئی تو اکھلیش یادو نے یہیں سے انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور  اپنا  پہلا الیکشن جیتا۔ اس کے بعد ۲۰۰۴ء اور ۲۰۰۹ء میں یعنی لگاتار ۳؍ بار اس حلقے کی نمائندگی کرنے کے بعد  ۲۰۱۲ء میں وزیراعلیٰ بننے کے بعد انہوں  نے اپنی اہلیہ ڈمپل یادو کو یہاں کی کمان سونپی اور  عوام نے انہیں   نہ صرف ۲۰۱۲ء  کے ضمنی الیکشن  میں بلا مقابلہ منتخب کیا بلکہ  ۲۰۱۴ء  کے عام انتخابات میں بھی جبکہ پورے ملک میں مودی لہر چل رہی تھی، کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہی وجہ  ہے کہ ۲۰۱۹ء میں ۱۲؍ ہزار ووٹوں کے معمولی فرق سے سبرت پاٹھک کی جیت کو استثنیٰ  کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اکھلیش یادو کے  میدان میں اتر جانے کے بعد سبرت پاٹھک کے کیلئے مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔انہیں  امید بی ایس پی کے مسلم امیدوار سے ہے۔ اگر وہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ سبرت پاٹھک کے حق میں ہوگا۔ ایسا ہونے کا امکان ہے مگر پہلے ۲؍ مراحل کے رجحان کو دیکھیں تو  بہت کم ہے  جبکہ سماجوادی سربراہ کو امید ہے کہ وہ اس حلقے کو ہی نہیں بلکہ یہاں سے اپنی امیدواری  کے ذریعہ پورے یادو بیلٹ کو سماجوادی کے حق میں ہموار کرلیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK