Inquilab Logo

سی اے اے قانون کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ ۱۹؍ مارچ کو سماعت کرے گا

Updated: March 15, 2024, 3:07 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ کے چیف جسٹسٹ ڈی وائے چندرچڈ نے سی اے اے پرروک لگانے کی عرضیوں پر سماعت کیلئے ۱۹؍ مارچ کی تاریخ طے کی ہے۔ سپریم کورٹ میں سے اے اے کے خلاف تقریباً ۲۰۰؍ درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ سی اے اے کے نفاذ کے بعد اس کے خلاف ملک گیر احتجاج میں اضافہ ہوا ہے۔

Anti caa protest. Photo:INN
سی اےاے کے خلاف احتجاج۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے شہری ترمیمی قانون پر روک لگانے کے تعلق سے متعدد درخواستوں پر سماعت کرنے کیلئے ۱۹؍ مارچ کی تاریخ متعین کی ہے۔ اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کے وکیل کپل سبل نےعدالت کے توجہ اس جانب دلائی جس کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائے قانون کے خلاف عرضیوں پر سماعت کرنے کیلئے تیارہوئے ہیں۔ اطلاعات کے عدالت میں سی اے اے کے خلاف ۲۰۰؍ درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ ۱۲؍ مارچ کودی انڈین مسلم لیگ نے بھی سپریم کورٹ نے عدالت میں فوری سماعت کی درخواست دی تھی اور کہاتھا کہ عدالت اس قانون پر اور مرکزی حکومت کی جانب سے اس تعلق سے جاری کی گئی نوٹیفکیشن پر روک لگانے کی اپیل کی ہے۔
سی اے اے کیا ہے؟
واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے ۱۱؍ مارچ کو سی اے اے نافذ کیا تھا۔ اس قانون نے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ۳۱؍ دسمبر سے قبل ہندوستان میں داخل ہونے والے سکھ، ہندو، جین ، پارسی اور عیسائی پناہ گزینوںکیلئے بغیر پاسپورٹ اور ہندوستانی ویزا کے ہندوستانی شہریت کا راستہ آسان بنا دیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون دسمبر ۲۰۱۹ء کو پارلیمنٹ میں پاس کیا گیا تھا۔ لوک سبھا نے۹؍ دسمبر جبکہ راجیہ سبھا نے ۱۱؍ دسمبر کو یہ بل پاس کیا تھا۔ غیر قانونی تارکین وطن کی شہریت میں ترمیم کا اطلاق بعض علاقوں پر نہیں ہوگاجن میں آسام، میگھالیہ، میزورم اور تران چھ شیڈول قبائیلی علاقومیں کربی انگلونگ(آسام)، گارو ہلس(میگھالیہ)، چکما ضلع(میزورم)، تریپورہ کے قبائیلی علاقوں کے اضلاع شامل ہیں۔تاہم، انٹر لائن ،تمام افراد،جن میں ہندوستانی شہری بھی شامل ہیں، کے اروناچل پردیش، میزورم اور ناگالینڈکے دورے کو منظم بناتا ہے۔
سی اے اے کے خلاف احتجاج کیوں؟
تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ سی اے اے ملک کے ۲۰۰؍ ملین سے زائد مسلمانوں میں تفریق کا سبب بن سکتا ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا مسلمانوں کی آبادی والا ملک ہے۔تاہم، رائٹس گروپ اور مسلم اداروں نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہناہے کہ تجویز کردہ این آر سی کے ساتھ سی اے اے سرحدی ریاستوں میں مسلمانوں کی شہریت کیلئے خطرہ کاباعث بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں این آر سی،جس کے تحت سپریم کورٹ کے حکم پر آسام سے غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کی اور ان کا خاتمہ کیاگیاہے،  آسام میں ایک طویل مدتی مطالبہ رہا ہے۔ آسام میں اس کے نافذ ہونے کے بعد ملک میں این سی آر کو نافذ کرنے کے مطالبات بڑھ گئے ہیں جس نے مسلمانوں کو این آر سی اور سی اے اے کے تحت نشانہ بنانے کے خوف میں اضافہ کی اہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK