تل ابیب نے غزہ میں ۴۰۰؍ مقامات کو نشانہ بنایا، خان یونس کیمپ پر شدید بمباری، اہل غزہ کو دھکیل کر رفح کراسنگ کے قریب پہنچانے کی کوشش، ۲۴۰؍ شہید، مجموعی تعداد ۱۵؍ ہزار ۲۰۷؍ ہوگئی
EPAPER
Updated: December 03, 2023, 9:04 AM IST | Mumbai
تل ابیب نے غزہ میں ۴۰۰؍ مقامات کو نشانہ بنایا، خان یونس کیمپ پر شدید بمباری، اہل غزہ کو دھکیل کر رفح کراسنگ کے قریب پہنچانے کی کوشش، ۲۴۰؍ شہید، مجموعی تعداد ۱۵؍ ہزار ۲۰۷؍ ہوگئی
غزہ میں عارضی جنگ بندی کو بحال کرنے کیلئے قطر میں جاری مذاکرات سنیچر کو پوری طرح ناکام ہوگئے ۔اسرائیل نے اپنے وفد کو وہاں سے واپس بلالیا ہے جبکہ غزہ میں جمعہ کی صبح سے شروع کی گئی اس کی بمباری میں شدت آگئی ہے۔ پورے غزہ پر بمباری کرتے ہوئے تل ابیب یہ کوشش کرتا ہوا نظر آرہاہے کہ غزہ کے شہریوں کو دھکیل کر رفح کراسنگ تک پہنچادے۔ سنیچر کی بمباری میں مزید ۱۳۱؍ شہادتوں کے ساتھ ہی ۲؍دنوں میں اسرائیلی بمباری میں جام شہادت نوش کرنےوالوں کی تعداد ۲۴۰؍ ہوگئی ہے جبکہ شہیدوں کی مجموعی تعداد ۱۵؍ ہزار ۲۰۷؍ ریکارڈ کی گئی ہے جس میں ۷۰؍ فیصد بچے اور خواتین ہیں۔
۴۰۰؍ اہداف پر حملے
اسرائیل نے جنگ بندی ختم ہونے کےبعد غزہ میں ۴۰۰؍ اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔اس کے مطابق اس نے ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے والی سہولیات اور انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنایاہے۔ اسرائیلی فورسیز نے ٹیلی گرام پر جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’گزشتہ دنوں اسرائیلی فوجوں نے پورے غزہ میں شدت پسند حماس کے۴؍ سو سے زیادہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔‘‘فوج نے کہا کہ اس نے ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے والے کمپلیکس، حماس کے بنیادی ڈھانچے اور اسلامی جہاد کے آپریشنل کمانڈ سینٹر کے طور پر استعمال ہونے والی مسجد پر حملہ کیا ہے۔
پورے غزہ پر بے تحاشہ بمباری
غزہ پر اسرائیل کی خوفناک بمباری میں سنیچر کو ۱۳۱؍ فلسطینی شہید اور۶۵۰؍ زخمی ہوگئے ہیں۔شہیدوں میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ بی بی سی اور الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے رفح کراسنگ کے ذریعے اشد ضروری امداد بھی آنا بند ہو گئی ہے۔ شمالی غزہ میں اسرائیلی فوجیوں اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان شدید جھڑپیں ہورہی ہیں جب کہ پورے غزہ پر اسرائیلی فوج کی اندھادھند بمباری جاری ہے۔ فضائی حملوں میں جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں شمال مغربی غزہ اور جنوب میں خان یونس شامل ہیں، جہاں لاکھوں افراد نے حملوں سے بچنے کیلئے پناہ لے رکھی ہے۔ شہر میں مکانات کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں ناصر اسپتال کے قریب وہ گھر بھی شامل ہے، جہاں بی بی سی کے صحافی مقیم تھے۔
’’عوام کو رفح سرحدکی جانب دھکیلا جارہاہے‘‘
غزہ میں موجود انڈیپنڈنس کمیشن فار ہیومن رائٹس کے ترجمان نے ناصر اسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ شہریوں کو رفح بارڈر کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ اسرائیلی مزید لاکھوں افراد کو بے گھر کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، مذکورہ تنظیم نے اقوام عالم سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام کریں۔
ترجمان نے کہا کہ جو کچھ ہورہاہے اس کیلئے امریکہ برابر کا ذمہ دار ہے ۔اس نے نہ صرف حملوں کی کھلی چھوٹ دی ہے بلکہ حملوں سے متعلق فیصلوں میں بھی شامل ہے۔ انڈیپنڈنس کمیشن فار ہیومن رائٹس کے ترجمان نے امریکی عوام کو للکارتے ہوئے کہا کہ ’’ہم براہ راست امریکی عوام سے مخاطب ہیں۔ آپ کے صدر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں حصہ لے رہے ہیں۔‘‘
اب جنوبی غزہ سے بھی بے دخل کیا جارہاہے
اسرائیل نےجنگ بندی سے قبل حملوں کے وقت فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنےپر مجبورکیا اوراب وہ جنوبی غزہ کو نشانہ بنارہاہے۔شمالی غزہ سے بے گھر ہونے والے افراد نے جنوبی غزہ میں ہی پناہ لی تھی۔ جنوبی غزہ کو بھی نشانہ بنائے جانے پر عوام میں شدید برہمی ہے۔فلسطینی صحافی ہند الخدری نے بتایا کہ شہری برہم، جھنجھلائے ہوئے اور خوفزدہ ہیں۔وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم آخرکہاں جائیں؟جنوبی غزہ میں اسپتالوں، اقوام متحدہ کےا سکولوں اور عام شہریوں کے گھروں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے کیوں کہ شمالی غزہ سے آنے ایک لاکھ سے زائد فلسطینی یہاں پناہ گزیں ہیں۔
الخدری بتاتی ہیں کہ شہری واپس شمالی غزہ نہیں جاسکتے کیوں کہ وہاں زمینی لڑائی جاری ہے جبکہ رفح کی طرف بھی بمباری ہورہی ہے۔ ان کے مطابق’’ہم کہاں جائیں؟ یہ وہ سوال ہےجو وہ پوچھ رہے ہیں۔
جنگ بندی کی کوششوں کو جھٹکا، اسرائیل علاحدہ
اس بیچ جنگ بندی کی امیدیں بھی معدوم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اسرائیل نے قطر میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات سے خود کو الگ کرلیا ہے۔ اس نےبات چیت میں شریک موساد کے وفد کو واپس بلا لیا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق موساد کا کہنا ہے کہ ایک مذاکراتی ٹیم جو قطر میں تھی کو واپس بھیجنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔جاسوسی ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں نیتن یاہو کے دفتر کے پیغام کا حوالہ دیاگیاہے اور کہا گیا ہے کہ’’مذاکرات کے خاتمے اور وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی ہدایات کے بعد، موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا نے دوحہ میں مذاکراتی ٹیم کو گھر واپس آنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
حماس پر ہی الزام تھوپ دیا گیا
موساد کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں جنگ بندی بحال ہونے میں ناکامی کیلئے حماس کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔اس کے مطابق ’’حماس نے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں جس میں ان تمام خواتین اور بچوں کو رہا کرنا شامل تھا جو حماس کو فراہم کی گئی فہرست میں شامل تھے۔‘‘اس کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے کہا ہےکہ موساد سربراہ نے سی آئی اے سربراہ، مصری وزیر انٹیلی جنس اور قطری وزیراعظم کا عارضی جنگ بندی کے دوران ۸۴؍ اسرائیلی یرغمال خواتین، بچوں اور ۲۴؍ غیرملکیوں کی رہائی میں مدد کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔دوسری طرف حماس نے جنگ بندی کی بحالی میں ناکامی کیلئے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔