Inquilab Logo

مرکز کی جانب سےیوم حقوقِ مسلم خواتین کا انعقاد

Updated: August 01, 2021, 11:23 PM IST | Saeed Ahmed Khan/Agency | Mumbai

مگر طلاق ِثلاثہ قانون کے حوالے سے منائے گئےاِس دن کو پرسنل لاء بورڈ نے ’’چوری اور سینہ زوری‘ ‘ قراردیا، ۶۶۰؍ ممتاز خواتین نے بھی مذمت کی

`Muslim Women`s Rights Da.Picture:INN
مرکزی وزیر مختار عباس نقوی وزارت برائے اقلیتی امور کی جانب سے ’یوم حقوق مسلم خواتین‘ کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے۔ ۔تصویر: پی ٹی آئی

مسلم خواتین کے شدید  اور ملک گیر احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے وضع کئے گئے طلاق ثلاثہ قانون کو ۲؍ سال مکمل ہونے پر اتوار، یکم اگست کو مرکزی حکومت نے  ’یوم حقوق ِ مسلم خواتین‘ کے طور پر منایا۔ حکومت کے اس عمل کو زخم پر نمک چھڑکنے سے تعبیر کیاجارہاہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مودی سرکار کی شدید مذمت کرتے ہوئے  اسے ’’چوری اور سینہ زوری‘‘کے مترادف قراردیا ہے۔ دوسری طرف بلاتفریق مذہب  ملک کی  ۶۶۱؍ممتاز خواتین نے ایک مشترکہ بیان میں مودی حکومت کی اس حرکت کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے حکومت پر مسلمانوں  کوان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کیلئے کوشاں رہنے کا الزام عائد کرتے ہوئے  ’یوم حقوق  مسلم خواتین ‘ کو اس کا اُتاولا پن قرار دیا ہے۔ 
قانون نے خواتین کو خود کفیل بنایا: نقوی
  بہرحال مرکزی وزارت برائے اقلیتی امورکی جانب سے منعقدہ ’’یوم حقوق برائے مسلم خواتین ‘‘  کے پروگرام میں برقع پوش خواتین نے شرکت کی۔ اس کی میزبانی مختار عباس نقوی نے کی  جبکہ وزیر برائے خواتین و اطفال اسمرتی ایرانی  اور مرکزی وزیر ماحولیات بھوپندر یادو مہمان  تھے۔  نقوی نے   طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ روایت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ  اس کے خلاف  بنائے گئے قانون کیلئے مسلم خواتین نے وزیر اعظم  مودی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ مسلم خواتین کاکہنا ہے کہ اس قانون نے انہیں خود کفیل بنایا  اور اعتماد کوپختہ کیا نیز ان کے  آئینی اور بنیادی حقوق اور برابری کے حق کو یقینی بنایا۔
 چوری اور سینہ زوری: پرسنل لاء بورڈ
 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کارگزار جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے   طلاق ثلاثہ قانون وضع کئے جانے کی دوسری سالگرہ کے موق پر حکومت کی جانب سے منائے جارہے ’’ یوم حقوق مسلم خواتین‘‘کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ یہ چوری اور سینہ زوری کے مصداق ہے۔‘‘ انہوں  نے نشاندہی کی کہ ’’اس قانون نے مسلم خواتین کی دشواریوں کو بڑھا دیا ہے کیونکہ حکومت اس کو طلاق تسلیم نہیں کرتی اور مسلم سماج شریعت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کو طلاق تصور کرتا ہے، اس کے نتیجہ میں ایسی خواتین قانون کی رو سے دوسرا نکاح کرسکتی ہیں،  مگر مسلم معاشرہ میں کوئی ان سے نکاح کیلئے  تیار نہیں ہوتا اور کوئی بھی فرد اپنے سماج سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔‘‘ انہوں وہی بنیادی سوال بھی دہرایا کہ ’’ اس قانون میں مطلقہ عورت کو شوہر کی طرف سے نفقہ کا مستحق قرار دیا گیا ہے مگر مرد کیلئے  تین سال قید کی سزا رکھی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ جب شوہر جیل میں ہوگا تو  بیوی کا نان  نفقہ کیسے ادا کرے گا؟‘‘  انہوں نے واضح کیا کہ ’’ یہ قانون تضاد سے بھرا ہوا ہے اور عورتوں کیلئےسخت نقصان دہ ہے۔‘‘مولانا نے یاد دہانی کرائی کہ  اسی لئے بڑے پیمانے پر خواتین اس قانون کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں ۔ انہوں مطالبہ کیا کہ ’’حکومت کو چاہئے کہ علماء کے مشورہ سے اس میں مناسب ترمیم کیلئے پارلیمنٹ میں بل لائے۔‘‘
 مولانا نے یاد دہانی کرائی کہ  اسی لئے بڑے پیمانے پر خواتین اس قانون کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں ۔ انہوں مطالبہ کیا کہ ’’حکومت کو چاہئے کہ علماء کے مشورہ سے اس میں مناسب ترمیم کیلئے پارلیمنٹ میں بل لائے۔‘‘
 مولانا نے یاد دہانی کرائی کہ  اسی لئے بڑے پیمانے پر خواتین اس قانون کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں ۔ انہوں مطالبہ کیا کہ ’’حکومت کو چاہئے کہ علماء کے مشورہ سے اس میں مناسب ترمیم کیلئے پارلیمنٹ میں بل لائے۔‘‘
ممتاز خواتین نے بھی حکومت کی مذمت 
  ممبئی اور ملک کے دیگر حصوں کی خواتین نے یکم اگست ۲۰۱۹ء وضع کردہ  طلاق  ثلاثہ قانون  پر  اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے ’’ یوم حقوق مسلم خواتین‘‘ منانے پر سخت تنقید کی  ہے۔ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی اور مودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے۶۶۱؍ خواتین نے مشترکہ بیان  میں کہا  ہےکہ جس حکومت نے مسلم خواتین کے حقوق چھیننے کی انتھک کوشش کی ہو، اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ’’یوم حقوق مسلم خواتین‘‘  منائے۔ انہوں نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے انتہائی سخت بیان میں کہا ہے کہ یہ حکومت چن چن کر آئین میں دیئے گئے حقوق چھین رہی ہے۔اس حکومت نے مسلمانوں کے حقوق سلب کرلئے ہیں،  اس کے باوجود اس بات پر فخر کررہی ہے کہ وہ مسلم خواتین کے حقوق کی محافظ ہے۔
 طلاق ثلاثہ قانون کی قلعی کھولتے ہوئے بیان میں کہاگیا ہے کہ ’’ اس قانون کے ذریعے مسلم خواتین کے گھروں کو اجاڑنے اور برباد کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے ذریعے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلم شوہروں کی جگہ جیل ہے، یہ قانون انتہائی تباہ کن  اور بربادی کا ذریعہ ہے‌۔ ایسے کسی قانون کی ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ  یہ تو زبردستی تھوپا گیا ہے‌کیوں کہ سپریم کورٹ نے  طلاق  ثلاثہ کو پہلے  ہی منسوخ کردیا تھا۔  ایک طرف حکومت دکھاوا کررہی ہےکہ وہ مسلم خواتین کے حقوق کی محافظ ہے اور دوسری جانب وہ انہیں نیچا دکھانے اور پسماندگی کے غار میں‌ دھکیلنے  میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔‘‘  بیان جاری کرنےوالوں میں شامل آواز نسواں کی ذمہ دار حسینہ خان  نے  نمائندۂ انقلاب کے استفسار  پر بتایاکہ ’’ہماری تمام بہنوں نے حکومت کی مذمت کی ہے ۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ایک طرف انصاف مانگنے والی نجیب کی ماں ہوں یا جمہوری تقاضوں کے پیش نظر آئین مخالف شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف  آواز اٹھانے والی خواتین، ان کے خلاف کیس درج کئے گئے ، اہل خانہ پر مظالم ڈھائے گئے، یو اے پی اے لگایا گیا  اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا اور دوسری طرف  مختار عباس نقوی یہ ڈھونگ رچ رہے ہیں۔‘‘ نجیب کی ماں کا حوالہ دیتے ہوئے حسینہ خان نے کہا کہ ’’وہ انصاف کیلئے اپیل کرتی رہیں مگر کچھ نہیں ہوا۔ کیا یہ مسلم خواتین سے ہمدردی اور ان کے حقوق کی حفاظت ہے؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK